Urdu Afsana – Aik Saadi ka Qissa Fiction House

Urdu Afsana – Aik Saadi ka Qissa

Rs.2,000 200000
  • Successful pre-order.Thanks for contacting us!
  • Order within
Book Title
Urdu Afsana – Aik Saadi ka Qissa
Author
Fiction House
Order your copy of Urdu Afsana – Aik Saadi ka Qissa from Urdu Book to get a huge discount along with Shipping and chance to win books in the book fair and Urdu bazar online. Author: Dr. Anwaar Ahmad ISBN No: info not available Publisher: Kitab Nagar Publish Date: 2017 (third edition)Language: Urdu  Book Pages: 840 Weight: info not availableBook Size: - info not availableColor: - info not available بنیادی طور پر اس کا ماخذ میرا پی ایچ ڈی کا مقالہ ـ’ اردو افسانہ اپنے سیاسی اور سماجی تناظر میں ‘ہے ،جس کا ایک جزو بیکن بکس ملتان نے ـ’اردو افسانہ تحقیق و تنقید‘  کے عنوان سے شائع کیا، میرا خیال ہے کہ دوچار کمزوریوں کے باوجود یہ کتاب عام طور پر ایک سطح کے طالب علموں اور اُستادوں کے لیے مفید رہی ،لیکن مجھے برس ہا برس یہ خیال بھی رہا کہ اگر کبھی وقت ملا تو اس پر نظرثانی کرکے اور تمام افسانہ نگاروں کے بارے میں تازہ ترین معلومات کے ساتھ اسے دوبارہ شائع کروں جو اُردو افسانے کی ایک صدی کا قصہ ہو۔ سو، ایک خاکہ پھر سے سوچا گیا کہ ہرافسانہ نگار کے فن پر ایک مختصر تبصرے کے ساتھ سوانحی خاکہ بھی دیا جائے اور اُن کے تمام افسانوی مجموعوں میں موجود افسانوں کے عنوانات بھی درج کردئیے جائیں۔ یہ آخری بات کافی مشکل ثابت ہوئی کیونکہ بہت سی کتابیں پڑھے بغیر ہم لوگ تبصرہ کرنے پر قادر ہیں مگر اس طرح کی قیاسی تفصیلات گھڑنے کی ہمت نہ ہو سکی۔  جب نو سو سے زائد صفحات پر محیط افسانہ نگاروں کا یہ ’تذکرہ‘ اشاعت کے لئے تیار ہوا، توپروفیسر فتح محمدملک سابق صدر نشیںمقتدرہ قومی زبان میری مدد کو آئے اور اسے بڑی محبت اور اہتمام سے انہوں نے شائع کیا، بلکہ انہوں نے ستر،پچھتر ہزار روپے بطوررائلٹی بھی دی ،جو میری چھوٹی بیٹی عزیرہ نشاط کی شادی کے موقع  پر با برکت ثابت ہوئی۔ پھر اوساکا جا کر اپنی ایک ماہ کی تنخواہ سے اس کی اشاعت کا قصہ پہلے لکھ چکا ہوں،اب ایک عرصے سے وہ ایڈیشن بھی معدوم یا کم یاب ہو چکا دوسرے ضرورت تھی کہ طالب علموں کے لئے اسے اور مفید بنانے کے لئے اسے تازہ ترین معلومات سے آراستہ کیا جائے،بعض کوتاہیوں کا ازالہ کیا جائے اوراسے ایک نئی ترتیب دی جائے۔بنیادی طور پر اس کا ماخذ میرا پی ایچ ڈی کا مقالہ ـ’ اردو افسانہ اپنے سیاسی اور سماجی تناظر میں ‘ہے ،جس کا ایک جزو بیکن بکس ملتان نے ـ’اردو افسانہ تحقیق و تنقید‘  کے عنوان سے شائع کیا، میرا خیال ہے کہ دوچار کمزوریوں کے باوجود یہ کتاب عام طور پر ایک سطح کے طالب علموں اور اُستادوں کے لیے مفید رہی ،لیکن مجھے برس ہا برس یہ خیال بھی رہا کہ اگر کبھی وقت ملا تو اس پر نظرثانی کرکے اور تمام افسانہ نگاروں کے بارے میں تازہ ترین معلومات کے ساتھ اسے دوبارہ شائع کروں جو اُردو افسانے کی ایک صدی کا قصہ ہو۔ سو، ایک خاکہ پھر سے سوچا گیا کہ ہرافسانہ نگار کے فن پر ایک مختصر تبصرے کے ساتھ سوانحی خاکہ بھی دیا جائے اور اُن کے تمام افسانوی مجموعوں میں موجود افسانوں کے عنوانات بھی درج کردئیے جائیں۔ یہ آخری بات کافی مشکل ثابت ہوئی کیونکہ بہت سی کتابیں پڑھے بغیر ہم لوگ تبصرہ کرنے پر قادر ہیں مگر اس طرح کی قیاسی تفصیلات گھڑنے کی ہمت نہ ہو سکی۔  جب نو سو سے زائد صفحات پر محیط افسانہ نگاروں کا یہ ’تذکرہ‘ اشاعت کے لئے تیار ہوا، توپروفیسر فتح محمدملک سابق صدر نشیںمقتدرہ قومی زبان میری مدد کو آئے اور اسے بڑی محبت اور اہتمام سے انہوں نے شائع کیا، بلکہ انہوں نے ستر،پچھتر ہزار روپے بطوررائلٹی بھی دی ،جو میری چھوٹی بیٹی عزیرہ نشاط کی شادی کے موقع  پر با برکت ثابت ہوئی۔ پھر اوساکا جا کر اپنی ایک ماہ کی تنخواہ سے اس کی اشاعت کا قصہ پہلے لکھ چکا ہوں،اب ایک عرصے سے وہ ایڈیشن بھی معدوم یا کم یاب ہو چکا دوسرے ضرورت تھی کہ طالب علموں کے لئے اسے اور مفید بنانے کے لئے اسے تازہ ترین معلومات سے آراستہ کیا جائے،بعض کوتاہیوں کا ازالہ کیا جائے اوراسے ایک نئی ترتیب دی جائے۔ مواد کی فراہمی اور تخلیق کاروں یا کتاب خانوں سے رابطوں میں ڈاکٹر ہارون عثمانی (چیف لائبربرین پنجاب یونیوسٹی )میرے ہمیشہ سے معاون رہے،ان کے عم زاد محمد نعیم،المثال کے محمد عابد،میرے بہت سے شاگرد حماد رسول،خالد سنجرانی،عامر سہیل، روبینہ ترین،عقیلہ جاوید،ظفر ہرل،حنا جمشید،راشدہ قاضی،الیاس کبیر،سجاد نعیم،قاضی عابد،ناصر عباس نیر، محمد آصف اور اسی طرح کتابوں سے شغف رکھنے والے نند کشور وکرم[جن سے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے متعارف کرایا]شاہد حمید،بدر منیر اور کئی میرے مدد گار ہوئے مگر میں نے خیال کیا کہ میرے ساتھ ریسرچ سکالر کے طور پر دو عشرے پہلے کام کرنے والی ڈاکٹر شازیہ عنبریں،جامعہ اسلامیہ بہاولپور کے کتاب خانے سے مستعدی کے ساتھ مواد فراہم کرنے والی ڈاکٹر روبینہ رفیق اور بھارت کے بڑے برقیاتی ذخیرے ریختہ اور دیگر ایسے ذخائر سے برق رفتاری سے معلومات دینے والے زکریا یونیورسٹی کے ڈاکٹر خاور نوازش کا اعتراف باقاعدہ انداز میں کیا جانا چاہیے۔اسی طرح محمد جمیل قریشی کے الیکٹرانک ٹائپ رائٹر سے لے کر وقار حیدرہاشمی، اظہر حسین ،مقتدرہ کے جواد اور عارف،سیال کوٹ کے بلال ، جویریہ اور اب غلام مصطفی نے اس بنیادی مسودے کی کمپوزنگ میں میری مدد کی ہے۔ اورینٹل کالج لاہور کی نئی پی ایچ ڈی کلاس میں ہمارے ایک حیرت انگیز طالب علم سید علی نے پروف ریڈنگ کر کے گزشتہ کئی غلطیوں کا ازالہ کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ بیکن بکس کے عبدالجبار،المثال کے محمد عابد سے کتاب نگر کے شاکر حسین شاکر تک کا سفر میرے اس خواب کی تکمیل کے ہم راہی ہیں کہ کتاب زیادہ سے زیادہ چھپے مگرطالب علموں کے لئے حوصلہ شکن قیمت کے ساتھ نہ پہنچے ،یہ اور بات کہ اس مرتبہ ضخامت بہت زیادہ ہے اور شاید طباعت کے اخراجات بھی بڑھے ہوئے اور ماضی میں در سگاہوں میں دیئے جلانے والے کا اب اپنا گزارہ صرف پنشن پر ہے۔ Your one-stop Urdu book store www.urdubook.com

Order your copy of Urdu Afsana – Aik Saadi ka Qissa from Urdu Book to get a huge discount along with Shipping and chance to win books in the book fair and Urdu bazar online.

Author: Dr. Anwaar Ahmad
ISBN No: info not available
Publisher: Kitab Nagar
Publish Date: 2017 (third edition)
Language: Urdu 
Book Pages: 840
Weight: info not available
Book Size: - info not available
Color: - info not available

بنیادی طور پر اس کا ماخذ میرا پی ایچ ڈی کا مقالہ ـ’ اردو افسانہ اپنے سیاسی اور سماجی تناظر میں ‘ہے ،جس کا ایک جزو بیکن بکس ملتان نے ـ’اردو افسانہ تحقیق و تنقید‘  کے عنوان سے شائع کیا، میرا خیال ہے کہ دوچار کمزوریوں کے باوجود یہ کتاب عام طور پر ایک سطح کے طالب علموں اور اُستادوں کے لیے مفید رہی ،لیکن مجھے برس ہا برس یہ خیال بھی رہا کہ اگر کبھی وقت ملا تو اس پر نظرثانی کرکے اور تمام افسانہ نگاروں کے بارے میں تازہ ترین معلومات کے ساتھ اسے دوبارہ شائع کروں جو اُردو افسانے کی ایک صدی کا قصہ ہو۔ سو، ایک خاکہ پھر سے سوچا گیا کہ ہرافسانہ نگار کے فن پر ایک مختصر تبصرے کے ساتھ سوانحی خاکہ بھی دیا جائے اور اُن کے تمام افسانوی مجموعوں میں موجود افسانوں کے عنوانات بھی درج کردئیے جائیں۔ یہ آخری بات کافی مشکل ثابت ہوئی کیونکہ بہت سی کتابیں پڑھے بغیر ہم لوگ تبصرہ کرنے پر قادر ہیں مگر اس طرح کی قیاسی تفصیلات گھڑنے کی ہمت نہ ہو سکی۔  جب نو سو سے زائد صفحات پر محیط افسانہ نگاروں کا یہ ’تذکرہ‘ اشاعت کے لئے تیار ہوا، توپروفیسر فتح محمدملک سابق صدر نشیںمقتدرہ قومی زبان میری مدد کو آئے اور اسے بڑی محبت اور اہتمام سے انہوں نے شائع کیا، بلکہ انہوں نے ستر،پچھتر ہزار روپے بطوررائلٹی بھی دی ،جو میری چھوٹی بیٹی عزیرہ نشاط کی شادی کے موقع  پر با برکت ثابت ہوئی۔ پھر اوساکا جا کر اپنی ایک ماہ کی تنخواہ سے اس کی اشاعت کا قصہ پہلے لکھ چکا ہوں،اب ایک عرصے سے وہ ایڈیشن بھی معدوم یا کم یاب ہو چکا دوسرے ضرورت تھی کہ طالب علموں کے لئے اسے اور مفید بنانے کے لئے اسے تازہ ترین معلومات سے آراستہ کیا جائے،بعض کوتاہیوں کا ازالہ کیا جائے اوراسے ایک نئی ترتیب دی جائے۔بنیادی طور پر اس کا ماخذ میرا پی ایچ ڈی کا مقالہ ـ’ اردو افسانہ اپنے سیاسی اور سماجی تناظر میں ‘ہے ،جس کا ایک جزو بیکن بکس ملتان نے ـ’اردو افسانہ تحقیق و تنقید‘  کے عنوان سے شائع کیا، میرا خیال ہے کہ دوچار کمزوریوں کے باوجود یہ کتاب عام طور پر ایک سطح کے طالب علموں اور اُستادوں کے لیے مفید رہی ،لیکن مجھے برس ہا برس یہ خیال بھی رہا کہ اگر کبھی وقت ملا تو اس پر نظرثانی کرکے اور تمام افسانہ نگاروں کے بارے میں تازہ ترین معلومات کے ساتھ اسے دوبارہ شائع کروں جو اُردو افسانے کی ایک صدی کا قصہ ہو۔ سو، ایک خاکہ پھر سے سوچا گیا کہ ہرافسانہ نگار کے فن پر ایک مختصر تبصرے کے ساتھ سوانحی خاکہ بھی دیا جائے اور اُن کے تمام افسانوی مجموعوں میں موجود افسانوں کے عنوانات بھی درج کردئیے جائیں۔ یہ آخری بات کافی مشکل ثابت ہوئی کیونکہ بہت سی کتابیں پڑھے بغیر ہم لوگ تبصرہ کرنے پر قادر ہیں مگر اس طرح کی قیاسی تفصیلات گھڑنے کی ہمت نہ ہو سکی۔  جب نو سو سے زائد صفحات پر محیط افسانہ نگاروں کا یہ ’تذکرہ‘ اشاعت کے لئے تیار ہوا، توپروفیسر فتح محمدملک سابق صدر نشیںمقتدرہ قومی زبان میری مدد کو آئے اور اسے بڑی محبت اور اہتمام سے انہوں نے شائع کیا، بلکہ انہوں نے ستر،پچھتر ہزار روپے بطوررائلٹی بھی دی ،جو میری چھوٹی بیٹی عزیرہ نشاط کی شادی کے موقع  پر با برکت ثابت ہوئی۔ پھر اوساکا جا کر اپنی ایک ماہ کی تنخواہ سے اس کی اشاعت کا قصہ پہلے لکھ چکا ہوں،اب ایک عرصے سے وہ ایڈیشن بھی معدوم یا کم یاب ہو چکا دوسرے ضرورت تھی کہ طالب علموں کے لئے اسے اور مفید بنانے کے لئے اسے تازہ ترین معلومات سے آراستہ کیا جائے،بعض کوتاہیوں کا ازالہ کیا جائے اوراسے ایک نئی ترتیب دی جائے۔ مواد کی فراہمی اور تخلیق کاروں یا کتاب خانوں سے رابطوں میں ڈاکٹر ہارون عثمانی (چیف لائبربرین پنجاب یونیوسٹی )میرے ہمیشہ سے معاون رہے،ان کے عم زاد محمد نعیم،المثال کے محمد عابد،میرے بہت سے شاگرد حماد رسول،خالد سنجرانی،عامر سہیل، روبینہ ترین،عقیلہ جاوید،ظفر ہرل،حنا جمشید،راشدہ قاضی،الیاس کبیر،سجاد نعیم،قاضی عابد،ناصر عباس نیر، محمد آصف اور اسی طرح کتابوں سے شغف رکھنے والے نند کشور وکرم[جن سے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے متعارف کرایا]شاہد حمید،بدر منیر اور کئی میرے مدد گار ہوئے مگر میں نے خیال کیا کہ میرے ساتھ ریسرچ سکالر کے طور پر دو عشرے پہلے کام کرنے والی ڈاکٹر شازیہ عنبریں،جامعہ اسلامیہ بہاولپور کے کتاب خانے سے مستعدی کے ساتھ مواد فراہم کرنے والی ڈاکٹر روبینہ رفیق اور بھارت کے بڑے برقیاتی ذخیرے ریختہ اور دیگر ایسے ذخائر سے برق رفتاری سے معلومات دینے والے زکریا یونیورسٹی کے ڈاکٹر خاور نوازش کا اعتراف باقاعدہ انداز میں کیا جانا چاہیے۔اسی طرح محمد جمیل قریشی کے الیکٹرانک ٹائپ رائٹر سے لے کر وقار حیدرہاشمی، اظہر حسین ،مقتدرہ کے جواد اور عارف،سیال کوٹ کے بلال ، جویریہ اور اب غلام مصطفی نے اس بنیادی مسودے کی کمپوزنگ میں میری مدد کی ہے۔ اورینٹل کالج لاہور کی نئی پی ایچ ڈی کلاس میں ہمارے ایک حیرت انگیز طالب علم سید علی نے پروف ریڈنگ کر کے گزشتہ کئی غلطیوں کا ازالہ کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ بیکن بکس کے عبدالجبار،المثال کے محمد عابد سے کتاب نگر کے شاکر حسین شاکر تک کا سفر میرے اس خواب کی تکمیل کے ہم راہی ہیں کہ کتاب زیادہ سے زیادہ چھپے مگرطالب علموں کے لئے حوصلہ شکن قیمت کے ساتھ نہ پہنچے ،یہ اور بات کہ اس مرتبہ ضخامت بہت زیادہ ہے اور شاید طباعت کے اخراجات بھی بڑھے ہوئے اور ماضی میں در سگاہوں میں دیئے جلانے والے کا اب اپنا گزارہ صرف پنشن پر ہے۔

Your one-stop Urdu book store www.urdubook.com

Order your copy of Urdu Afsana – Aik Saadi ka Qissa from Urdu Book to get a huge discount along with Shipping and chance to win books in the book fair and Urdu bazar online.

Author: Dr. Anwaar Ahmad
ISBN No: info not available
Publisher: Kitab Nagar
Publish Date: 2017 (third edition)
Language: Urdu 
Book Pages: 840
Weight: info not available
Book Size: - info not available
Color: - info not available

بنیادی طور پر اس کا ماخذ میرا پی ایچ ڈی کا مقالہ ـ’ اردو افسانہ اپنے سیاسی اور سماجی تناظر میں ‘ہے ،جس کا ایک جزو بیکن بکس ملتان نے ـ’اردو افسانہ تحقیق و تنقید‘  کے عنوان سے شائع کیا، میرا خیال ہے کہ دوچار کمزوریوں کے باوجود یہ کتاب عام طور پر ایک سطح کے طالب علموں اور اُستادوں کے لیے مفید رہی ،لیکن مجھے برس ہا برس یہ خیال بھی رہا کہ اگر کبھی وقت ملا تو اس پر نظرثانی کرکے اور تمام افسانہ نگاروں کے بارے میں تازہ ترین معلومات کے ساتھ اسے دوبارہ شائع کروں جو اُردو افسانے کی ایک صدی کا قصہ ہو۔ سو، ایک خاکہ پھر سے سوچا گیا کہ ہرافسانہ نگار کے فن پر ایک مختصر تبصرے کے ساتھ سوانحی خاکہ بھی دیا جائے اور اُن کے تمام افسانوی مجموعوں میں موجود افسانوں کے عنوانات بھی درج کردئیے جائیں۔ یہ آخری بات کافی مشکل ثابت ہوئی کیونکہ بہت سی کتابیں پڑھے بغیر ہم لوگ تبصرہ کرنے پر قادر ہیں مگر اس طرح کی قیاسی تفصیلات گھڑنے کی ہمت نہ ہو سکی۔  جب نو سو سے زائد صفحات پر محیط افسانہ نگاروں کا یہ ’تذکرہ‘ اشاعت کے لئے تیار ہوا، توپروفیسر فتح محمدملک سابق صدر نشیںمقتدرہ قومی زبان میری مدد کو آئے اور اسے بڑی محبت اور اہتمام سے انہوں نے شائع کیا، بلکہ انہوں نے ستر،پچھتر ہزار روپے بطوررائلٹی بھی دی ،جو میری چھوٹی بیٹی عزیرہ نشاط کی شادی کے موقع  پر با برکت ثابت ہوئی۔ پھر اوساکا جا کر اپنی ایک ماہ کی تنخواہ سے اس کی اشاعت کا قصہ پہلے لکھ چکا ہوں،اب ایک عرصے سے وہ ایڈیشن بھی معدوم یا کم یاب ہو چکا دوسرے ضرورت تھی کہ طالب علموں کے لئے اسے اور مفید بنانے کے لئے اسے تازہ ترین معلومات سے آراستہ کیا جائے،بعض کوتاہیوں کا ازالہ کیا جائے اوراسے ایک نئی ترتیب دی جائے۔بنیادی طور پر اس کا ماخذ میرا پی ایچ ڈی کا مقالہ ـ’ اردو افسانہ اپنے سیاسی اور سماجی تناظر میں ‘ہے ،جس کا ایک جزو بیکن بکس ملتان نے ـ’اردو افسانہ تحقیق و تنقید‘  کے عنوان سے شائع کیا، میرا خیال ہے کہ دوچار کمزوریوں کے باوجود یہ کتاب عام طور پر ایک سطح کے طالب علموں اور اُستادوں کے لیے مفید رہی ،لیکن مجھے برس ہا برس یہ خیال بھی رہا کہ اگر کبھی وقت ملا تو اس پر نظرثانی کرکے اور تمام افسانہ نگاروں کے بارے میں تازہ ترین معلومات کے ساتھ اسے دوبارہ شائع کروں جو اُردو افسانے کی ایک صدی کا قصہ ہو۔ سو، ایک خاکہ پھر سے سوچا گیا کہ ہرافسانہ نگار کے فن پر ایک مختصر تبصرے کے ساتھ سوانحی خاکہ بھی دیا جائے اور اُن کے تمام افسانوی مجموعوں میں موجود افسانوں کے عنوانات بھی درج کردئیے جائیں۔ یہ آخری بات کافی مشکل ثابت ہوئی کیونکہ بہت سی کتابیں پڑھے بغیر ہم لوگ تبصرہ کرنے پر قادر ہیں مگر اس طرح کی قیاسی تفصیلات گھڑنے کی ہمت نہ ہو سکی۔  جب نو سو سے زائد صفحات پر محیط افسانہ نگاروں کا یہ ’تذکرہ‘ اشاعت کے لئے تیار ہوا، توپروفیسر فتح محمدملک سابق صدر نشیںمقتدرہ قومی زبان میری مدد کو آئے اور اسے بڑی محبت اور اہتمام سے انہوں نے شائع کیا، بلکہ انہوں نے ستر،پچھتر ہزار روپے بطوررائلٹی بھی دی ،جو میری چھوٹی بیٹی عزیرہ نشاط کی شادی کے موقع  پر با برکت ثابت ہوئی۔ پھر اوساکا جا کر اپنی ایک ماہ کی تنخواہ سے اس کی اشاعت کا قصہ پہلے لکھ چکا ہوں،اب ایک عرصے سے وہ ایڈیشن بھی معدوم یا کم یاب ہو چکا دوسرے ضرورت تھی کہ طالب علموں کے لئے اسے اور مفید بنانے کے لئے اسے تازہ ترین معلومات سے آراستہ کیا جائے،بعض کوتاہیوں کا ازالہ کیا جائے اوراسے ایک نئی ترتیب دی جائے۔ مواد کی فراہمی اور تخلیق کاروں یا کتاب خانوں سے رابطوں میں ڈاکٹر ہارون عثمانی (چیف لائبربرین پنجاب یونیوسٹی )میرے ہمیشہ سے معاون رہے،ان کے عم زاد محمد نعیم،المثال کے محمد عابد،میرے بہت سے شاگرد حماد رسول،خالد سنجرانی،عامر سہیل، روبینہ ترین،عقیلہ جاوید،ظفر ہرل،حنا جمشید،راشدہ قاضی،الیاس کبیر،سجاد نعیم،قاضی عابد،ناصر عباس نیر، محمد آصف اور اسی طرح کتابوں سے شغف رکھنے والے نند کشور وکرم[جن سے ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے متعارف کرایا]شاہد حمید،بدر منیر اور کئی میرے مدد گار ہوئے مگر میں نے خیال کیا کہ میرے ساتھ ریسرچ سکالر کے طور پر دو عشرے پہلے کام کرنے والی ڈاکٹر شازیہ عنبریں،جامعہ اسلامیہ بہاولپور کے کتاب خانے سے مستعدی کے ساتھ مواد فراہم کرنے والی ڈاکٹر روبینہ رفیق اور بھارت کے بڑے برقیاتی ذخیرے ریختہ اور دیگر ایسے ذخائر سے برق رفتاری سے معلومات دینے والے زکریا یونیورسٹی کے ڈاکٹر خاور نوازش کا اعتراف باقاعدہ انداز میں کیا جانا چاہیے۔اسی طرح محمد جمیل قریشی کے الیکٹرانک ٹائپ رائٹر سے لے کر وقار حیدرہاشمی، اظہر حسین ،مقتدرہ کے جواد اور عارف،سیال کوٹ کے بلال ، جویریہ اور اب غلام مصطفی نے اس بنیادی مسودے کی کمپوزنگ میں میری مدد کی ہے۔ اورینٹل کالج لاہور کی نئی پی ایچ ڈی کلاس میں ہمارے ایک حیرت انگیز طالب علم سید علی نے پروف ریڈنگ کر کے گزشتہ کئی غلطیوں کا ازالہ کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ بیکن بکس کے عبدالجبار،المثال کے محمد عابد سے کتاب نگر کے شاکر حسین شاکر تک کا سفر میرے اس خواب کی تکمیل کے ہم راہی ہیں کہ کتاب زیادہ سے زیادہ چھپے مگرطالب علموں کے لئے حوصلہ شکن قیمت کے ساتھ نہ پہنچے ،یہ اور بات کہ اس مرتبہ ضخامت بہت زیادہ ہے اور شاید طباعت کے اخراجات بھی بڑھے ہوئے اور ماضی میں در سگاہوں میں دیئے جلانے والے کا اب اپنا گزارہ صرف پنشن پر ہے۔

Your one-stop Urdu book store www.urdubook.com