SHER DARYA شير دريا Sang-e-Meel Publications

SHER DARYA شير دريا

Rs.600 60000
  • Successful pre-order.Thanks for contacting us!
  • Order within
Book Title
SHER DARYA شير دريا
Author
Sang-e-Meel Publications
Order your copy of SHER DARYA شير دريا from Urdu Book to get a huge discount along with Shipping and chance to win books in the book fair and Urdu bazar online.  ISBN No: 9693522591 Author: RAZA ALI ABIDI Language: Urdu Subject: SAFARNAMA Year: 2018  Your one-stop Urdu Book store www.urdubook.com  اب کے قصہ دریائے سندھ کا ہے۔ تبت والے کہتے ہیں کہ یہ دریا شیر کے منہ سے نکلتا ہے۔ اسی لیے انہوں نے اسے شیردریا کا نام دیا ہے۔ اس میں کمال دریا کا نہیں، اس شیرکا ہے جس نے اپنے قبیلے کی روایت توڑ کر کوئی نعمت نگلی نہیں، اُگلی ہے۔ لیکن جیسے جیسے یہ دریا آگے بڑھتا ہے۔ کہیں نگلنے کی کہانیاں کثرت سے سننے میں آتی ہیں اور کہیں جبراً اُگلوائے جانے کی ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب دریا کی کہانی نہیں، اس کے کنارے بسنے والوں کی ہزار داستان ہے۔ کہیں یہ دریا دُکھ دیتا ہے۔ کہیں سُکھ بانٹتا ہے اور کہیں سُکھ چھینتا ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کے کنارے پروان چڑھنے والی تهذیبیں کبھی کی کھنڈر ہو چکی ہیں۔ ۔اب تهذیب، تمدن، ترقی اورخوشحالی کے دھارے کہیں اور بہتے ہیں اور ہمارا یہ دریا کہیں اور- اب اس کتاب کے بارے میں چند باتیں ۔ دریائے سندھ کے کنارے اپنا سفر میں نے ایک مرحلے میں نہیں، تین مرحلوں میں مکمل کیا ۔۱۹۹۰ اور ۱۹۹۱ کے دوران میں گرمیوں میں پہاڑوں پرگیا، سردیوں میں میدانوں کی سیر کو نکلا اور راہ میں بیمار ہوگیا تو تیسری بار سندھ کے ڈیلٹا کا علاقہ دیکھا۔ اگر آپ واقعات میں بے ترتیبی دیکھیں یا تسلسل میں فاصلے محسوس کریں تو جان لیں کہ میں بلا روک ٹوک بہے چلے جانے والا دریا نہیں۔ دوسری بات یہ کہ لداخ کے کچھ علاقوں میں غیرملکیوں کو جانے کی اجازت نہیں۔ میں وہاں نہیں گیا ۔ صوبہ سندھ کے بعض حصوں میں ڈاکو دندناتے پھر رہے تھے۔ مجھے اپنے اغوا کی خبریں چھپوانا منظور نہ تھا ۔ میں اُن سے دور ہی رہا ۔ ایک اور بات یہ کہ میں نے کشتی میں بیٹھ کردریا کا سفر نہیں کیا۔ میں سارے راستے کنارے کنارے چلا۔ کنارے بدلتے رہے ، لوگ نہیں بدلے اور مجھے ان سے ہی غرض تھی۔ اس کتاب کے سارے باب اصل میں ریڈیائی پروگرام کے مسودے ہیں جنہیں اگرچه کتاب کے لیے ذراسا سنوار لیا گیا ہے لیکن پوری تحریر میں گفتگو کا انداز محفوظ ہے۔ پر علاقائی لب و لہجہ بھی ہے۔ بدقسمتی سے یہ لہجہ تحریر میں نہیں سما سکتا۔ اس دریا کے کنارے موسیقی بھی بہت ہے۔ افسوس کہ کتاب بول سکتی ہے، گُنگُنا بھی سکتی ہے، اونچی لَے میں گا نہیں سکتی۔ یہ ممکن ہے اس کتاب پر یاس کا رنگ چھایا ہو، لیکن وہ میری اختراع نہیں ۔ دریائے سندھ کے کنارے بسنے والوں کی زندگی ویسی نہیں جیسے بعض دوسرے علاقوں میں ہے۔ یہ لوگ مشکل حالات میں دلیری سے جی رہے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ دریا سے زیادہ یہ لوگ شیر ہیں۔ یہ کتاب سفرنامہ نہیں ہے، ایک مخصوص علاقے میں بسنے والوں کا سماجی مشاہدہ اور مطالعہ ہے جومستقبل کے محقق کو بتائے گا کہ بیسویں صدی کے خاتمے پر سندھ کے کنارے بسنے والوں کے کیسے کیسے خواب ٹوٹ چکے تھے اور کیسے کیسے نئے خواب انہیں جئے جانے کی اُمنگ عطا کر رہے تھے۔ اس سے بھی بڑھ کر اس کتاب کا مطالعہ آج کے قاری کو بتائے گا کہ جن علاقوں میں جانے کی زحمت کم ہی لوگ کرتے ہیں اُن علاقوں سے دریا کیونکر گزرتا ہے اور زندگی کیسے

Order your copy of SHER DARYA شير دريا from Urdu Book to get a huge discount along with Shipping and chance to win books in the book fair and Urdu bazar online. 

ISBN No: 9693522591 
Author: RAZA ALI ABIDI 
Language: Urdu 
Subject: SAFARNAMA 
Year: 2018 

Your one-stop Urdu Book store www.urdubook.com 

اب کے قصہ دریائے سندھ کا ہے۔

تبت والے کہتے ہیں کہ یہ دریا شیر کے منہ سے نکلتا ہے۔ اسی لیے انہوں نے اسے شیردریا کا نام دیا ہے۔ اس میں کمال دریا کا نہیں، اس شیرکا ہے جس نے اپنے قبیلے کی روایت توڑ کر کوئی نعمت نگلی نہیں، اُگلی ہے۔ لیکن جیسے جیسے یہ دریا آگے بڑھتا ہے۔ کہیں نگلنے کی کہانیاں کثرت سے سننے میں آتی ہیں اور کہیں جبراً اُگلوائے جانے کی ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب دریا کی کہانی نہیں، اس کے کنارے بسنے والوں کی ہزار داستان ہے۔ کہیں یہ دریا دُکھ دیتا ہے۔ کہیں سُکھ بانٹتا ہے اور کہیں سُکھ چھینتا ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کے کنارے پروان چڑھنے والی تهذیبیں کبھی کی کھنڈر ہو چکی ہیں۔ ۔اب تهذیب، تمدن، ترقی اورخوشحالی کے دھارے کہیں اور بہتے ہیں اور ہمارا یہ دریا کہیں اور-

اب اس کتاب کے بارے میں چند باتیں ۔ دریائے سندھ کے کنارے اپنا سفر میں نے ایک مرحلے میں نہیں، تین مرحلوں میں مکمل کیا ۔۱۹۹۰ اور ۱۹۹۱ کے دوران میں گرمیوں میں پہاڑوں پرگیا، سردیوں میں میدانوں کی سیر کو نکلا اور راہ میں بیمار ہوگیا تو تیسری بار سندھ کے ڈیلٹا کا علاقہ دیکھا۔ اگر آپ واقعات میں بے ترتیبی دیکھیں یا تسلسل میں فاصلے محسوس کریں تو جان لیں کہ میں بلا روک ٹوک بہے چلے جانے والا دریا نہیں۔ دوسری بات یہ کہ لداخ کے کچھ علاقوں میں غیرملکیوں کو جانے کی اجازت نہیں۔ میں وہاں نہیں گیا ۔ صوبہ سندھ کے بعض حصوں میں ڈاکو دندناتے پھر رہے تھے۔ مجھے اپنے اغوا کی خبریں چھپوانا منظور نہ تھا ۔ میں اُن سے دور ہی رہا ۔

ایک اور بات یہ کہ میں نے کشتی میں بیٹھ کردریا کا سفر نہیں کیا۔ میں سارے راستے کنارے کنارے چلا۔ کنارے بدلتے رہے ، لوگ نہیں بدلے اور مجھے ان سے ہی غرض تھی۔ اس کتاب کے سارے باب اصل میں ریڈیائی پروگرام کے مسودے ہیں جنہیں اگرچه کتاب کے لیے ذراسا سنوار لیا گیا ہے لیکن پوری تحریر میں گفتگو کا انداز محفوظ ہے۔ پر علاقائی لب و لہجہ بھی ہے۔ بدقسمتی سے یہ لہجہ تحریر میں نہیں سما سکتا۔ اس دریا کے کنارے موسیقی بھی بہت ہے۔ افسوس کہ کتاب بول سکتی ہے، گُنگُنا بھی سکتی ہے، اونچی لَے میں گا نہیں سکتی۔

یہ ممکن ہے اس کتاب پر یاس کا رنگ چھایا ہو، لیکن وہ میری اختراع نہیں ۔ دریائے سندھ کے کنارے بسنے والوں کی زندگی ویسی نہیں جیسے بعض دوسرے علاقوں میں ہے۔ یہ لوگ مشکل حالات میں دلیری سے جی رہے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ دریا سے زیادہ یہ لوگ شیر ہیں۔

یہ کتاب سفرنامہ نہیں ہے، ایک مخصوص علاقے میں بسنے والوں کا سماجی مشاہدہ اور مطالعہ ہے جومستقبل کے محقق کو بتائے گا کہ بیسویں صدی کے خاتمے پر سندھ کے کنارے بسنے والوں کے کیسے کیسے خواب ٹوٹ چکے تھے اور کیسے کیسے نئے خواب انہیں جئے جانے کی اُمنگ عطا کر رہے تھے۔ اس سے بھی بڑھ کر اس کتاب کا مطالعہ آج کے قاری کو بتائے گا کہ جن علاقوں میں جانے کی زحمت کم ہی لوگ کرتے ہیں اُن علاقوں سے دریا کیونکر گزرتا ہے اور زندگی کیسے

Order your copy of SHER DARYA شير دريا from Urdu Book to get a huge discount along with Shipping and chance to win books in the book fair and Urdu bazar online. 

ISBN No: 9693522591 
Author: RAZA ALI ABIDI 
Language: Urdu 
Subject: SAFARNAMA 
Year: 2018 

Your one-stop Urdu Book store www.urdubook.com 

اب کے قصہ دریائے سندھ کا ہے۔

تبت والے کہتے ہیں کہ یہ دریا شیر کے منہ سے نکلتا ہے۔ اسی لیے انہوں نے اسے شیردریا کا نام دیا ہے۔ اس میں کمال دریا کا نہیں، اس شیرکا ہے جس نے اپنے قبیلے کی روایت توڑ کر کوئی نعمت نگلی نہیں، اُگلی ہے۔ لیکن جیسے جیسے یہ دریا آگے بڑھتا ہے۔ کہیں نگلنے کی کہانیاں کثرت سے سننے میں آتی ہیں اور کہیں جبراً اُگلوائے جانے کی ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب دریا کی کہانی نہیں، اس کے کنارے بسنے والوں کی ہزار داستان ہے۔ کہیں یہ دریا دُکھ دیتا ہے۔ کہیں سُکھ بانٹتا ہے اور کہیں سُکھ چھینتا ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ اس کے کنارے پروان چڑھنے والی تهذیبیں کبھی کی کھنڈر ہو چکی ہیں۔ ۔اب تهذیب، تمدن، ترقی اورخوشحالی کے دھارے کہیں اور بہتے ہیں اور ہمارا یہ دریا کہیں اور-

اب اس کتاب کے بارے میں چند باتیں ۔ دریائے سندھ کے کنارے اپنا سفر میں نے ایک مرحلے میں نہیں، تین مرحلوں میں مکمل کیا ۔۱۹۹۰ اور ۱۹۹۱ کے دوران میں گرمیوں میں پہاڑوں پرگیا، سردیوں میں میدانوں کی سیر کو نکلا اور راہ میں بیمار ہوگیا تو تیسری بار سندھ کے ڈیلٹا کا علاقہ دیکھا۔ اگر آپ واقعات میں بے ترتیبی دیکھیں یا تسلسل میں فاصلے محسوس کریں تو جان لیں کہ میں بلا روک ٹوک بہے چلے جانے والا دریا نہیں۔ دوسری بات یہ کہ لداخ کے کچھ علاقوں میں غیرملکیوں کو جانے کی اجازت نہیں۔ میں وہاں نہیں گیا ۔ صوبہ سندھ کے بعض حصوں میں ڈاکو دندناتے پھر رہے تھے۔ مجھے اپنے اغوا کی خبریں چھپوانا منظور نہ تھا ۔ میں اُن سے دور ہی رہا ۔

ایک اور بات یہ کہ میں نے کشتی میں بیٹھ کردریا کا سفر نہیں کیا۔ میں سارے راستے کنارے کنارے چلا۔ کنارے بدلتے رہے ، لوگ نہیں بدلے اور مجھے ان سے ہی غرض تھی۔ اس کتاب کے سارے باب اصل میں ریڈیائی پروگرام کے مسودے ہیں جنہیں اگرچه کتاب کے لیے ذراسا سنوار لیا گیا ہے لیکن پوری تحریر میں گفتگو کا انداز محفوظ ہے۔ پر علاقائی لب و لہجہ بھی ہے۔ بدقسمتی سے یہ لہجہ تحریر میں نہیں سما سکتا۔ اس دریا کے کنارے موسیقی بھی بہت ہے۔ افسوس کہ کتاب بول سکتی ہے، گُنگُنا بھی سکتی ہے، اونچی لَے میں گا نہیں سکتی۔

یہ ممکن ہے اس کتاب پر یاس کا رنگ چھایا ہو، لیکن وہ میری اختراع نہیں ۔ دریائے سندھ کے کنارے بسنے والوں کی زندگی ویسی نہیں جیسے بعض دوسرے علاقوں میں ہے۔ یہ لوگ مشکل حالات میں دلیری سے جی رہے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ دریا سے زیادہ یہ لوگ شیر ہیں۔

یہ کتاب سفرنامہ نہیں ہے، ایک مخصوص علاقے میں بسنے والوں کا سماجی مشاہدہ اور مطالعہ ہے جومستقبل کے محقق کو بتائے گا کہ بیسویں صدی کے خاتمے پر سندھ کے کنارے بسنے والوں کے کیسے کیسے خواب ٹوٹ چکے تھے اور کیسے کیسے نئے خواب انہیں جئے جانے کی اُمنگ عطا کر رہے تھے۔ اس سے بھی بڑھ کر اس کتاب کا مطالعہ آج کے قاری کو بتائے گا کہ جن علاقوں میں جانے کی زحمت کم ہی لوگ کرتے ہیں اُن علاقوں سے دریا کیونکر گزرتا ہے اور زندگی کیسے