Mai Jama Tu - میں جمع تو Book Corner

Mai Jama Tu - میں جمع تو

Rs.500 50000
  • Successful pre-order.Thanks for contacting us!
  • Order within
Book Title
Mai Jama Tu - میں جمع تو
Author
Book Corner
Order your copy of Mai Jama Tu - میں جمع تو from Urdu Book to earn reward points along with fast Shipping and chance to win books in the book fair and Urdu bazar online. Author: AMRITA PRITAMTranslator: AHMED SALEEMLanguage: UrduPages: 248Year: 2020ISBN: 978-969-662-314-4Categories: POETRY, AUTOBIOGRAPHY, MEMOIRS امروز کے لفظوں میں اگر کوئی امرتا کی تمام تخلیقات، نظمیں، کہانیاں، ناول ترتیب وار سامنے رکھ کر پڑھے تو وہ امرتا کی پوری زندگی کو جان سکتا ہے۔ اگر کوئی چاہے تو اس کی بنیاد پر اس کی سوانح لکھ سکتا ہے اور میں اس بات سے اتفاق کرتی ہوں، اسی لیے میں نے ”رسیدی ٹکٹ“ کے شروع میں لکھا تھا ”جو کچھ پیش آیا وہ سب کا سب نظموں اور ناولوں کے حوالے ہوگیا، پھر باقی کیا بچا۔ اس کے باوجود کچھ سطریں لکھ رہی ہوں، اس طرح جس طرح زندگی کے حساب کتاب کے کاغذوں پر ایک چھوٹا سا رسیدی ٹکٹ لگا رہی ہوں، نظموں اور ناولوں کے حساب کتاب کی کچی رسید کو پکی رسید بنانے کے لیے۔“ ”رسیدی ٹکٹ“ میرے من کی تاریخ ہے، میری تخلیقات کا پس منظر، میری تخلیق کی جنم بھومی، لیکن اگر میں اس میں ترتیب سے ان تخلیقات کے زمانے کو بھی جوڑنے لگتی ان تخلیقات سمیت تو مجھ میں انھیں شائع کرنے کی طاقت نہ ہوتی۔ اب بھی ناولوں اور کہانیوں کو ایک طرف رکھ کر صرف نظموں کو سامنے رکھا ہے اور وہ بھی صرف ان نظموں کو جن کا تعلق میری نجی زندگی سے ہے۔ حالانکہ لوگوں کے درد کو میں اپنے درد کا ہی حصہ مانتی ہوں۔ میرے مفہوم میں تمام لوگ میرے وجود کی وسعت ہیں لیکن یہاں میں ”نجی زندگی“ کے لفظ کو بڑے محدود معنوں میں، اکہرے معنوں میں صرف ان نظموں کا انتخاب کر رہی ہوں جو کسی خاص شخص کی یعنی ”تو“ کی میری زندگی میں آمد سے متعلق ہیں۔میری زندگی میں پہلی آمد خلا کی تھی جس میں جو کچھ چاہ لیا، جو کچھ تصور کر لیا وہی سوچ گھڑی بھر کے لیے من کی حالت ہوگئی۔ یہ ایک حقیقت کا ایک تصور کے گلے لگ کے باتیں کرنے کا وقت تھا۔ اس عہد کی کچھ نظمیں ہیں۔امرتا پریتم Your one-stop Urdu Book store www.urdubook.com 

Order your copy of Mai Jama Tu - میں جمع تو from Urdu Book to earn reward points along with fast Shipping and chance to win books in the book fair and Urdu bazar online.

Author: AMRITA PRITAM
Translator: AHMED SALEEM
Language: Urdu
Pages: 248
Year: 2020
ISBN: 978-969-662-314-4
Categories: POETRY, AUTOBIOGRAPHY, MEMOIRS

امروز کے لفظوں میں اگر کوئی امرتا کی تمام تخلیقات، نظمیں، کہانیاں، ناول ترتیب وار سامنے رکھ کر پڑھے تو وہ امرتا کی پوری زندگی کو جان سکتا ہے۔ اگر کوئی چاہے تو اس کی بنیاد پر اس کی سوانح لکھ سکتا ہے اور میں اس بات سے اتفاق کرتی ہوں، اسی لیے میں نے ”رسیدی ٹکٹ“ کے شروع میں لکھا تھا ”جو کچھ پیش آیا وہ سب کا سب نظموں اور ناولوں کے حوالے ہوگیا، پھر باقی کیا بچا۔ اس کے باوجود کچھ سطریں لکھ رہی ہوں، اس طرح جس طرح زندگی کے حساب کتاب کے کاغذوں پر ایک چھوٹا سا رسیدی ٹکٹ لگا رہی ہوں، نظموں اور ناولوں کے حساب کتاب کی کچی رسید کو پکی رسید بنانے کے لیے۔“ ”رسیدی ٹکٹ“ میرے من کی تاریخ ہے، میری تخلیقات کا پس منظر، میری تخلیق کی جنم بھومی، لیکن اگر میں اس میں ترتیب سے ان تخلیقات کے زمانے کو بھی جوڑنے لگتی ان تخلیقات سمیت تو مجھ میں انھیں شائع کرنے کی طاقت نہ ہوتی۔ اب بھی ناولوں اور کہانیوں کو ایک طرف رکھ کر صرف نظموں کو سامنے رکھا ہے اور وہ بھی صرف ان نظموں کو جن کا تعلق میری نجی زندگی سے ہے۔ حالانکہ لوگوں کے درد کو میں اپنے درد کا ہی حصہ مانتی ہوں۔ میرے مفہوم میں تمام لوگ میرے وجود کی وسعت ہیں لیکن یہاں میں ”نجی زندگی“ کے لفظ کو بڑے محدود معنوں میں، اکہرے معنوں میں صرف ان نظموں کا انتخاب کر رہی ہوں جو کسی خاص شخص کی یعنی ”تو“ کی میری زندگی میں آمد سے متعلق ہیں۔میری زندگی میں پہلی آمد خلا کی تھی جس میں جو کچھ چاہ لیا، جو کچھ تصور کر لیا وہی سوچ گھڑی بھر کے لیے من کی حالت ہوگئی۔ یہ ایک حقیقت کا ایک تصور کے گلے لگ کے باتیں کرنے کا وقت تھا۔ اس عہد کی کچھ نظمیں ہیں۔

امرتا پریتم

Your one-stop Urdu Book store www.urdubook.com 

Order your copy of Mai Jama Tu - میں جمع تو from Urdu Book to earn reward points along with fast Shipping and chance to win books in the book fair and Urdu bazar online.

Author: AMRITA PRITAM
Translator: AHMED SALEEM
Language: Urdu
Pages: 248
Year: 2020
ISBN: 978-969-662-314-4
Categories: POETRY, AUTOBIOGRAPHY, MEMOIRS

امروز کے لفظوں میں اگر کوئی امرتا کی تمام تخلیقات، نظمیں، کہانیاں، ناول ترتیب وار سامنے رکھ کر پڑھے تو وہ امرتا کی پوری زندگی کو جان سکتا ہے۔ اگر کوئی چاہے تو اس کی بنیاد پر اس کی سوانح لکھ سکتا ہے اور میں اس بات سے اتفاق کرتی ہوں، اسی لیے میں نے ”رسیدی ٹکٹ“ کے شروع میں لکھا تھا ”جو کچھ پیش آیا وہ سب کا سب نظموں اور ناولوں کے حوالے ہوگیا، پھر باقی کیا بچا۔ اس کے باوجود کچھ سطریں لکھ رہی ہوں، اس طرح جس طرح زندگی کے حساب کتاب کے کاغذوں پر ایک چھوٹا سا رسیدی ٹکٹ لگا رہی ہوں، نظموں اور ناولوں کے حساب کتاب کی کچی رسید کو پکی رسید بنانے کے لیے۔“ ”رسیدی ٹکٹ“ میرے من کی تاریخ ہے، میری تخلیقات کا پس منظر، میری تخلیق کی جنم بھومی، لیکن اگر میں اس میں ترتیب سے ان تخلیقات کے زمانے کو بھی جوڑنے لگتی ان تخلیقات سمیت تو مجھ میں انھیں شائع کرنے کی طاقت نہ ہوتی۔ اب بھی ناولوں اور کہانیوں کو ایک طرف رکھ کر صرف نظموں کو سامنے رکھا ہے اور وہ بھی صرف ان نظموں کو جن کا تعلق میری نجی زندگی سے ہے۔ حالانکہ لوگوں کے درد کو میں اپنے درد کا ہی حصہ مانتی ہوں۔ میرے مفہوم میں تمام لوگ میرے وجود کی وسعت ہیں لیکن یہاں میں ”نجی زندگی“ کے لفظ کو بڑے محدود معنوں میں، اکہرے معنوں میں صرف ان نظموں کا انتخاب کر رہی ہوں جو کسی خاص شخص کی یعنی ”تو“ کی میری زندگی میں آمد سے متعلق ہیں۔میری زندگی میں پہلی آمد خلا کی تھی جس میں جو کچھ چاہ لیا، جو کچھ تصور کر لیا وہی سوچ گھڑی بھر کے لیے من کی حالت ہوگئی۔ یہ ایک حقیقت کا ایک تصور کے گلے لگ کے باتیں کرنے کا وقت تھا۔ اس عہد کی کچھ نظمیں ہیں۔

امرتا پریتم

Your one-stop Urdu Book store www.urdubook.com