Karaknath کرک ناتھ Book Corner

Karaknath کرک ناتھ

Rs.999 99900
  • Successful pre-order.Thanks for contacting us!
  • Order within
Book Title
Karaknath کرک ناتھ
Author
Book Corner
Order your copy of Karaknath کرک ناتھ from Urdu Book to get discount along with vouchers and chance to win books in Pak book fair.  Author: Muhammad Hafeez Khan ISBN No: 978-969-662-262-8 Book Pages: 400 Language: Urdu  Category: Novel  اقباسات:خود ماہین نے بھی اتنے کم دنوں میں اتنے زیادہ ٹھکانے اور اتنے زیادہ مرد بدلے کہ اُسے عورت کے مزاج میں دخیل پردیسی پن اور عدم تحفظ کی وجوہات سمجھ میں آنے لگی تھیں۔ ہر نئی جگہ اور ہر نئے مرد سے بہت کم وقت میں جڑت کا وصف عورت کو شاید اِسی پردیسی پن اور عدم تحفظ کے ردِ عمل میں عطا ہوا ہو گا کہ جو مردوں کے نزدیک بےوفائی سے عبارت ہے۔ ذیشان بھی اگرچہ تمام راستہ خاموشی سے سگریٹ پیتا رہا تھا مگرماہین کو گاڑی سے نیچے اُتارنے کے بعد واپس آواز دے کر سمجھانا نہیں بھولا تھا کہ اگر زندہ رہنا چاہتی ہے تو پولیس سے بچ کر رہے ورنہ اُس کے خلاف درج ہو چکے کیس کا نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بس وہی ایک لمحہ تھا کہ جب ذیشان کے چہرے کی سفاکیت ذرا سی ماند پڑی لیکن نجانے کیوں ماہین کو اُس کا یہ رُوپ اچھا نہ لگا۔ وہ اُس کے ہاتھوں پولیس مقابلے میں اُس کی اکاونویں مقتول ہونے کو تو تیار تھی مگر اُس کے چہرے کی سفاکیت کے ماند پڑنے پر کسی صورت بھی راضی نہیں تھی۔ وہ پہلی نظر ہی میں جان چکی تھی کہ اِسی سفاکیت اور اِسی کڑک دھڑک کے نتیجے میں تو ذیشان کی ستواں ناک برچھی بن کر عورتوں کے دل میں اُتر جایا کرتی تھی۔------ذیشان اپنا آج کا کھیل ختم کر چکا تھا مگر شدید غنودگی کے باوجود سونا نہیں چاہتا تھا۔ وہ کوٹھی خانے میں سوجانے کا مطلب اچھی طرح سے جانتا تھا، سو سگریٹ پر سگریٹ سلگائے چلا جا رہا تھا۔ جب کہ ماہین تو ابھی ابھی بیداری کے مراحل میں داخل ہوا چاہتی تھی کہ جھٹک دی گئی، سو پھر سے خول میں بند ہونے کی کوشش کرنے لگی۔ اُس خول میں چھوٹے چھوٹے پانچ مردوئے بھی گھسنے اور گھس بیٹھنے کی کوششوں میں تھے۔ طیفا کھوتا، الیاس، رمضان، کالا اور شادا___وہ پانچوں اپنی فطری درندگی کے باوجود ماہین کو معصوم سے لگ رہے تھے۔ جیسے تھے کم از کم دِکھتے تو ویسے تھے، نہ کہ ذیشان کی مانند، جونہیں تھا وہ دِکھا اور جو تھا وہ دِکھا ہی نہیں۔------ماہین جس کوٹھی کے سامنے اُتری وہ اُس کی منزل نہیں تھی۔ ذیشان کے چلے جانے کے بعد وہ پیدل چلتی ہوئی اُسی لین میں تیسری کوٹھی کے گیٹ پر جا کر رُکی اور ادھ کھلے لکڑی کے گیٹ کے دائیں ستون پر نصب الیکٹرک گھنٹی کے بٹن کو دبا کر کسی کے آنے کا انتظار کرنے لگی۔ وہ دل میں پیوست ذیشان کی مردانہ وجاہت کی برچھی کے باوجود زندہ رہنے کی جدو جہد میں اُس پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں تھی۔ یہ صنفی فہم کا تعصب ہے یا عورت ہونے سے جڑی ہوئی محتاط روی کہ وہ مرد کو عمومی طور پر ایک سنگل پیکج گرادننے کی بجائے مختلف ٹکڑوں میں بانٹ کر قبول یا رَدّ کرتی ہے جب کہ مرد عورت کو ہمیشہ ایک سنگل پیکج ہی سمجھتا اور اُسے اُسی طور قبول یا رَدّ کرتا ہے۔ عورت کے لیے ضروری نہیں ہوتا کہ جس مرد کو اُس نے ایک معاملے میں قبول کیا ہو وہ اُسے اپنی ذات سے جڑے ہوئے باقی معاملات میں بھی قبول کرتی ہو، جب کہ مرد کو اُس کی تصوراتی برتری کا زعم عورت سے تعامل کے معاملات میں اِس کے برعکس باور کرائے رہتا ہے، یہی سبب ہے کہ وہ اُسے آسان لیتا ہے اور ہمیشہ خسارے میں رہنے کے باوجود خسارہ ماننے کو تیار بھی نہیں ہوتا۔------کچھ مصنف کے بارے میں:محمد حفیظ خان ایک معتبر محقق، مؤرخ ،نقاد، ناول نگار، افسانہ نگار، ڈراما نگار، شاعر، کالم نویس اور صحافی کے طور پر منفرد شناخت کے حامل ہیں۔ گزشتہ 48 برسوں سے علم وادب کی مختلف اصناف میں گراں قدر اضافے کا باعث ہوتے ہوئے بھی انہوں نے پیشہ ورانہ لحاظ سے مختلف جہتوں میں ناموری حاصل کی۔ 1980 ء میں وکالت سے آغاز کے بعد انہوں نے ریڈیو پاکستان کو بطور پروڈیوسر جائن کیا اور بعدازاں جامعاتی سطح پر قانون کے مدرس رہے۔ یکے بعد دیگرے وفاقی اور صوبائی سول سروس کا حصہ رہنے کے بعد ضلعی عدلیہ میں شمولیت حاصل کی جہاں سول جج سے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تک کے مناصب پر فائز رہنے کے علاوہ حکومت ِ پنجاب میں ایڈیشنل سیکریٹری محکمہ قانون و پارلیمانی امور اور پنجاب سروس ٹربیونل کے ممبر اور چیئرمین بھی رہے۔ ملک کے مایہ ناز تربیتی اداروں میں قانون اور ادب کی تدریس کے علاوہ اِن دنوں وفاقی جوڈیشل اکیڈمی اسلام آباد میں تدریسی اور انتظامی امور بھی اُن کی ذمہ داریوں میں شامل ہیں۔ 1965ء میں بچوں کے ادب سے ادبی زندگی کا آغاز کرنے والے محمد حفیظ خان نے1971ء سے باقاعدہ افسانہ نگاری اور 1975ء میں ریڈیو پاکستان بہاول پور کے لیے ڈرامالکھنے کی شروعات کرتے ہوئے اب تک دو مرتبہ اکادمی ادبیات کے ہجرہ ایوارڈ (1989-1990ء) اور قومی سول ایوارڈ ’’تمغۂ امتیاز‘‘ (2011ء) حاصل کر چکے ہیں۔ پاکستان ٹیلی وژن سے بہترین ڈراما نگار کا ایوارڈ (2002ء) اکادمی ادبیات کے بورڈ آف گورنرز کی رکنیت ، ’’کمالِ فن ‘‘ایوارڈ کی جیوری میں کئی بار کی شمولیت، اکادمی کی اشاعتی کمیٹی، ترجمہ کمیٹی اور وظائف کمیٹی کی رکنیت بھی اُن کے اعزازات میں شامل ہیں۔ ’’پلاک ‘‘کی جانب سے گزشتہ برس اُن کی کتاب ’’پٹھانے خان‘‘ پرشفقت تنویر مرز ایوارڈ اور نیشنل بک فاؤنڈیشن کی جانب سے انہیں تین مرتبہ ’’کتاب کا سفیر‘‘ بھی مقرر کیا گیا ہے۔ اُردو اور سرائیکی افسانہ ، ڈراما، شاعری، تحقیق، تنقید، تاریخ اور کالم نگاری اگرچہ اُن کے خاص شعبے ہیں لیکن حال ہی میں اُن کے ناول ’’اَدھ ادھورے لوگ‘‘ اور ’’اَنواسی‘‘نے قومی سطح پر پذیرائی حاصل کی ہے۔ Your one-stop Urdu  store www.urdubook.com 

Order your copy of Karaknath کرک ناتھ from Urdu Book to get discount along with vouchers and chance to win books in Pak book fair. 

Author: Muhammad Hafeez Khan 
ISBN No: 978-969-662-262-8 
Book Pages: 400 
Language: Urdu  
Category: Novel 

اقباسات:

خود ماہین نے بھی اتنے کم دنوں میں اتنے زیادہ ٹھکانے اور اتنے زیادہ مرد بدلے کہ اُسے عورت کے مزاج میں دخیل پردیسی پن اور عدم تحفظ کی وجوہات سمجھ میں آنے لگی تھیں۔ ہر نئی جگہ اور ہر نئے مرد سے بہت کم وقت میں جڑت کا وصف عورت کو شاید اِسی پردیسی پن اور عدم تحفظ کے ردِ عمل میں عطا ہوا ہو گا کہ جو مردوں کے نزدیک بےوفائی سے عبارت ہے۔ ذیشان بھی اگرچہ تمام راستہ خاموشی سے سگریٹ پیتا رہا تھا مگرماہین کو گاڑی سے نیچے اُتارنے کے بعد واپس آواز دے کر سمجھانا نہیں بھولا تھا کہ اگر زندہ رہنا چاہتی ہے تو پولیس سے بچ کر رہے ورنہ اُس کے خلاف درج ہو چکے کیس کا نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بس وہی ایک لمحہ تھا کہ جب ذیشان کے چہرے کی سفاکیت ذرا سی ماند پڑی لیکن نجانے کیوں ماہین کو اُس کا یہ رُوپ اچھا نہ لگا۔ وہ اُس کے ہاتھوں پولیس مقابلے میں اُس کی اکاونویں مقتول ہونے کو تو تیار تھی مگر اُس کے چہرے کی سفاکیت کے ماند پڑنے پر کسی صورت بھی راضی نہیں تھی۔ وہ پہلی نظر ہی میں جان چکی تھی کہ اِسی سفاکیت اور اِسی کڑک دھڑک کے نتیجے میں تو ذیشان کی ستواں ناک برچھی بن کر عورتوں کے دل میں اُتر جایا کرتی تھی۔

------

ذیشان اپنا آج کا کھیل ختم کر چکا تھا مگر شدید غنودگی کے باوجود سونا نہیں چاہتا تھا۔ وہ کوٹھی خانے میں سوجانے کا مطلب اچھی طرح سے جانتا تھا، سو سگریٹ پر سگریٹ سلگائے چلا جا رہا تھا۔ جب کہ ماہین تو ابھی ابھی بیداری کے مراحل میں داخل ہوا چاہتی تھی کہ جھٹک دی گئی، سو پھر سے خول میں بند ہونے کی کوشش کرنے لگی۔ اُس خول میں چھوٹے چھوٹے پانچ مردوئے بھی گھسنے اور گھس بیٹھنے کی کوششوں میں تھے۔ طیفا کھوتا، الیاس، رمضان، کالا اور شادا___وہ پانچوں اپنی فطری درندگی کے باوجود ماہین کو معصوم سے لگ رہے تھے۔ جیسے تھے کم از کم دِکھتے تو ویسے تھے، نہ کہ ذیشان کی مانند، جونہیں تھا وہ دِکھا اور جو تھا وہ دِکھا ہی نہیں۔


------

ماہین جس کوٹھی کے سامنے اُتری وہ اُس کی منزل نہیں تھی۔ ذیشان کے چلے جانے کے بعد وہ پیدل چلتی ہوئی اُسی لین میں تیسری کوٹھی کے گیٹ پر جا کر رُکی اور ادھ کھلے لکڑی کے گیٹ کے دائیں ستون پر نصب الیکٹرک گھنٹی کے بٹن کو دبا کر کسی کے آنے کا انتظار کرنے لگی۔ وہ دل میں پیوست ذیشان کی مردانہ وجاہت کی برچھی کے باوجود زندہ رہنے کی جدو جہد میں اُس پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں تھی۔ یہ صنفی فہم کا تعصب ہے یا عورت ہونے سے جڑی ہوئی محتاط روی کہ وہ مرد کو عمومی طور پر ایک سنگل پیکج گرادننے کی بجائے مختلف ٹکڑوں میں بانٹ کر قبول یا رَدّ کرتی ہے جب کہ مرد عورت کو ہمیشہ ایک سنگل پیکج ہی سمجھتا اور اُسے اُسی طور قبول یا رَدّ کرتا ہے۔ عورت کے لیے ضروری نہیں ہوتا کہ جس مرد کو اُس نے ایک معاملے میں قبول کیا ہو وہ اُسے اپنی ذات سے جڑے ہوئے باقی معاملات میں بھی قبول کرتی ہو، جب کہ مرد کو اُس کی تصوراتی برتری کا زعم عورت سے تعامل کے معاملات میں اِس کے برعکس باور کرائے رہتا ہے، یہی سبب ہے کہ وہ اُسے آسان لیتا ہے اور ہمیشہ خسارے میں رہنے کے باوجود خسارہ ماننے کو تیار بھی نہیں ہوتا۔

------

کچھ مصنف کے بارے میں:

محمد حفیظ خان ایک معتبر محقق، مؤرخ ،نقاد، ناول نگار، افسانہ نگار، ڈراما نگار، شاعر، کالم نویس اور صحافی کے طور پر منفرد شناخت کے حامل ہیں۔ گزشتہ 48 برسوں سے علم وادب کی مختلف اصناف میں گراں قدر اضافے کا باعث ہوتے ہوئے بھی انہوں نے پیشہ ورانہ لحاظ سے مختلف جہتوں میں ناموری حاصل کی۔ 1980 ء میں وکالت سے آغاز کے بعد انہوں نے ریڈیو پاکستان کو بطور پروڈیوسر جائن کیا اور بعدازاں جامعاتی سطح پر قانون کے مدرس رہے۔ یکے بعد دیگرے وفاقی اور صوبائی سول سروس کا حصہ رہنے کے بعد ضلعی عدلیہ میں شمولیت حاصل کی جہاں سول جج سے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تک کے مناصب پر فائز رہنے کے علاوہ حکومت ِ پنجاب میں ایڈیشنل سیکریٹری محکمہ قانون و پارلیمانی امور اور پنجاب سروس ٹربیونل کے ممبر اور چیئرمین بھی رہے۔ ملک کے مایہ ناز تربیتی اداروں میں قانون اور ادب کی تدریس کے علاوہ اِن دنوں وفاقی جوڈیشل اکیڈمی اسلام آباد میں تدریسی اور انتظامی امور بھی اُن کی ذمہ داریوں میں شامل ہیں۔ 1965ء میں بچوں کے ادب سے ادبی زندگی کا آغاز کرنے والے محمد حفیظ خان نے1971ء سے باقاعدہ افسانہ نگاری اور 1975ء میں ریڈیو پاکستان بہاول پور کے لیے ڈرامالکھنے کی شروعات کرتے ہوئے اب تک دو مرتبہ اکادمی ادبیات کے ہجرہ ایوارڈ (1989-1990ء) اور قومی سول ایوارڈ ’’تمغۂ امتیاز‘‘ (2011ء) حاصل کر چکے ہیں۔ پاکستان ٹیلی وژن سے بہترین ڈراما نگار کا ایوارڈ (2002ء) اکادمی ادبیات کے بورڈ آف گورنرز کی رکنیت ، ’’کمالِ فن ‘‘ایوارڈ کی جیوری میں کئی بار کی شمولیت، اکادمی کی اشاعتی کمیٹی، ترجمہ کمیٹی اور وظائف کمیٹی کی رکنیت بھی اُن کے اعزازات میں شامل ہیں۔ ’’پلاک ‘‘کی جانب سے گزشتہ برس اُن کی کتاب ’’پٹھانے خان‘‘ پرشفقت تنویر مرز ایوارڈ اور نیشنل بک فاؤنڈیشن کی جانب سے انہیں تین مرتبہ ’’کتاب کا سفیر‘‘ بھی مقرر کیا گیا ہے۔ اُردو اور سرائیکی افسانہ ، ڈراما، شاعری، تحقیق، تنقید، تاریخ اور کالم نگاری اگرچہ اُن کے خاص شعبے ہیں لیکن حال ہی میں اُن کے ناول ’’اَدھ ادھورے لوگ‘‘ اور ’’اَنواسی‘‘نے قومی سطح پر پذیرائی حاصل کی ہے۔

Your one-stop Urdu  store www.urdubook.com 

Order your copy of Karaknath کرک ناتھ from Urdu Book to get discount along with vouchers and chance to win books in Pak book fair. 

Author: Muhammad Hafeez Khan 
ISBN No: 978-969-662-262-8 
Book Pages: 400 
Language: Urdu  
Category: Novel 

اقباسات:

خود ماہین نے بھی اتنے کم دنوں میں اتنے زیادہ ٹھکانے اور اتنے زیادہ مرد بدلے کہ اُسے عورت کے مزاج میں دخیل پردیسی پن اور عدم تحفظ کی وجوہات سمجھ میں آنے لگی تھیں۔ ہر نئی جگہ اور ہر نئے مرد سے بہت کم وقت میں جڑت کا وصف عورت کو شاید اِسی پردیسی پن اور عدم تحفظ کے ردِ عمل میں عطا ہوا ہو گا کہ جو مردوں کے نزدیک بےوفائی سے عبارت ہے۔ ذیشان بھی اگرچہ تمام راستہ خاموشی سے سگریٹ پیتا رہا تھا مگرماہین کو گاڑی سے نیچے اُتارنے کے بعد واپس آواز دے کر سمجھانا نہیں بھولا تھا کہ اگر زندہ رہنا چاہتی ہے تو پولیس سے بچ کر رہے ورنہ اُس کے خلاف درج ہو چکے کیس کا نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ بس وہی ایک لمحہ تھا کہ جب ذیشان کے چہرے کی سفاکیت ذرا سی ماند پڑی لیکن نجانے کیوں ماہین کو اُس کا یہ رُوپ اچھا نہ لگا۔ وہ اُس کے ہاتھوں پولیس مقابلے میں اُس کی اکاونویں مقتول ہونے کو تو تیار تھی مگر اُس کے چہرے کی سفاکیت کے ماند پڑنے پر کسی صورت بھی راضی نہیں تھی۔ وہ پہلی نظر ہی میں جان چکی تھی کہ اِسی سفاکیت اور اِسی کڑک دھڑک کے نتیجے میں تو ذیشان کی ستواں ناک برچھی بن کر عورتوں کے دل میں اُتر جایا کرتی تھی۔

------

ذیشان اپنا آج کا کھیل ختم کر چکا تھا مگر شدید غنودگی کے باوجود سونا نہیں چاہتا تھا۔ وہ کوٹھی خانے میں سوجانے کا مطلب اچھی طرح سے جانتا تھا، سو سگریٹ پر سگریٹ سلگائے چلا جا رہا تھا۔ جب کہ ماہین تو ابھی ابھی بیداری کے مراحل میں داخل ہوا چاہتی تھی کہ جھٹک دی گئی، سو پھر سے خول میں بند ہونے کی کوشش کرنے لگی۔ اُس خول میں چھوٹے چھوٹے پانچ مردوئے بھی گھسنے اور گھس بیٹھنے کی کوششوں میں تھے۔ طیفا کھوتا، الیاس، رمضان، کالا اور شادا___وہ پانچوں اپنی فطری درندگی کے باوجود ماہین کو معصوم سے لگ رہے تھے۔ جیسے تھے کم از کم دِکھتے تو ویسے تھے، نہ کہ ذیشان کی مانند، جونہیں تھا وہ دِکھا اور جو تھا وہ دِکھا ہی نہیں۔


------

ماہین جس کوٹھی کے سامنے اُتری وہ اُس کی منزل نہیں تھی۔ ذیشان کے چلے جانے کے بعد وہ پیدل چلتی ہوئی اُسی لین میں تیسری کوٹھی کے گیٹ پر جا کر رُکی اور ادھ کھلے لکڑی کے گیٹ کے دائیں ستون پر نصب الیکٹرک گھنٹی کے بٹن کو دبا کر کسی کے آنے کا انتظار کرنے لگی۔ وہ دل میں پیوست ذیشان کی مردانہ وجاہت کی برچھی کے باوجود زندہ رہنے کی جدو جہد میں اُس پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں تھی۔ یہ صنفی فہم کا تعصب ہے یا عورت ہونے سے جڑی ہوئی محتاط روی کہ وہ مرد کو عمومی طور پر ایک سنگل پیکج گرادننے کی بجائے مختلف ٹکڑوں میں بانٹ کر قبول یا رَدّ کرتی ہے جب کہ مرد عورت کو ہمیشہ ایک سنگل پیکج ہی سمجھتا اور اُسے اُسی طور قبول یا رَدّ کرتا ہے۔ عورت کے لیے ضروری نہیں ہوتا کہ جس مرد کو اُس نے ایک معاملے میں قبول کیا ہو وہ اُسے اپنی ذات سے جڑے ہوئے باقی معاملات میں بھی قبول کرتی ہو، جب کہ مرد کو اُس کی تصوراتی برتری کا زعم عورت سے تعامل کے معاملات میں اِس کے برعکس باور کرائے رہتا ہے، یہی سبب ہے کہ وہ اُسے آسان لیتا ہے اور ہمیشہ خسارے میں رہنے کے باوجود خسارہ ماننے کو تیار بھی نہیں ہوتا۔

------

کچھ مصنف کے بارے میں:

محمد حفیظ خان ایک معتبر محقق، مؤرخ ،نقاد، ناول نگار، افسانہ نگار، ڈراما نگار، شاعر، کالم نویس اور صحافی کے طور پر منفرد شناخت کے حامل ہیں۔ گزشتہ 48 برسوں سے علم وادب کی مختلف اصناف میں گراں قدر اضافے کا باعث ہوتے ہوئے بھی انہوں نے پیشہ ورانہ لحاظ سے مختلف جہتوں میں ناموری حاصل کی۔ 1980 ء میں وکالت سے آغاز کے بعد انہوں نے ریڈیو پاکستان کو بطور پروڈیوسر جائن کیا اور بعدازاں جامعاتی سطح پر قانون کے مدرس رہے۔ یکے بعد دیگرے وفاقی اور صوبائی سول سروس کا حصہ رہنے کے بعد ضلعی عدلیہ میں شمولیت حاصل کی جہاں سول جج سے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تک کے مناصب پر فائز رہنے کے علاوہ حکومت ِ پنجاب میں ایڈیشنل سیکریٹری محکمہ قانون و پارلیمانی امور اور پنجاب سروس ٹربیونل کے ممبر اور چیئرمین بھی رہے۔ ملک کے مایہ ناز تربیتی اداروں میں قانون اور ادب کی تدریس کے علاوہ اِن دنوں وفاقی جوڈیشل اکیڈمی اسلام آباد میں تدریسی اور انتظامی امور بھی اُن کی ذمہ داریوں میں شامل ہیں۔ 1965ء میں بچوں کے ادب سے ادبی زندگی کا آغاز کرنے والے محمد حفیظ خان نے1971ء سے باقاعدہ افسانہ نگاری اور 1975ء میں ریڈیو پاکستان بہاول پور کے لیے ڈرامالکھنے کی شروعات کرتے ہوئے اب تک دو مرتبہ اکادمی ادبیات کے ہجرہ ایوارڈ (1989-1990ء) اور قومی سول ایوارڈ ’’تمغۂ امتیاز‘‘ (2011ء) حاصل کر چکے ہیں۔ پاکستان ٹیلی وژن سے بہترین ڈراما نگار کا ایوارڈ (2002ء) اکادمی ادبیات کے بورڈ آف گورنرز کی رکنیت ، ’’کمالِ فن ‘‘ایوارڈ کی جیوری میں کئی بار کی شمولیت، اکادمی کی اشاعتی کمیٹی، ترجمہ کمیٹی اور وظائف کمیٹی کی رکنیت بھی اُن کے اعزازات میں شامل ہیں۔ ’’پلاک ‘‘کی جانب سے گزشتہ برس اُن کی کتاب ’’پٹھانے خان‘‘ پرشفقت تنویر مرز ایوارڈ اور نیشنل بک فاؤنڈیشن کی جانب سے انہیں تین مرتبہ ’’کتاب کا سفیر‘‘ بھی مقرر کیا گیا ہے۔ اُردو اور سرائیکی افسانہ ، ڈراما، شاعری، تحقیق، تنقید، تاریخ اور کالم نگاری اگرچہ اُن کے خاص شعبے ہیں لیکن حال ہی میں اُن کے ناول ’’اَدھ ادھورے لوگ‘‘ اور ’’اَنواسی‘‘نے قومی سطح پر پذیرائی حاصل کی ہے۔

Your one-stop Urdu  store www.urdubook.com