Dosri Baraf Bari Se Pehly - دوسری برف باری سے پہلے Book Corner

Dosri Baraf Bari Se Pehly - دوسری برف باری سے پہلے

Rs.500 50000
  • Successful pre-order.Thanks for contacting us!
  • Order within
Book Title
Dosri Baraf Bari Se Pehly - دوسری برف باری سے پہلے
Author
Book Corner
Order your copy of Dosri Baraf Bari Se Pehly - دوسری برف باری سے پہلے from Urdu Book to earn reward points along with fast Shipping and chance to win books in the book fair and Urdu bazar online. Author: KRISHAN CHANDARTranslator: N/ALanguage: UrduPages: 272Year: 2021ISBN: 978-969-662-294-9Categories: Novel 1967ء | پہلی مرتبہ بمبئی سے ماہنامہ ”شاعر“ کرشن چندر نمبر، جلد 38، شمارہ 3-4، میں ”تازہ و غیر مطبوعہ“ کی سُرخی کے ساتھ شائع ہوا۔1995ء | پاکستان میں پہلی مرتبہ جہلم سے ”بک کارنر“ نے نستعلیق کتابت کروا کے شائع کیاہے۔2020ء | جہلم سے ”بک کارنر“ نے نستعلیق کمپوزنگ کروا کے دوبارہ جدید ایڈیشن شائع کیا۔”دوسری برف باری سے پہلے“ اُردو کے لاکھوں شائقین کی طرح میرا بھی پسندیدہ ناول ہے۔ یہ جہاں پست انسانی جذبات، حرص، ہوس، لالچ، جاہ پسندی اور انتقام کی داستان ہے وہاں اعلیٰ ترین انسانی اوصاف انس، پیار، محبت، ہمدردی اور انسان دوستی کا مرقع بھی ہے۔ انسانی فطرت کے انتہائی قریب جس میں ایک ایک لفظ سچائی کی زبان میں پیش کیا گیا ہے۔ناول میں مختلف طبقاتی پس منظر سے تعلق رکھنے والی دو عورتوں کا کردار بیان کیا گیا ہے جو ایک جیسی جاہ پسندی، لالچ اور حرص و ہوس کا شکار ہیں۔ ہر قیمت پر آگے بڑھنے کی ہوس کے لیے وہ اپنی عصمتوں کو بھینٹ چڑھانے سے بھی دریغ نہیں کرتیں۔ ان میں سے ایک خانہ بدوش اور ان پڑھ عورت درشنا ہے جس نے اپنی آنکھوں میں محل دو محلوں کے خواب سجا رکھے ہیں۔ اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے اپنی محبت اور اپنے محبوب خاوند کی زندگی کو بھی دائو پر لگا دیتی ہے۔ جب خاوند (ٹھاکر سنگھ) کو اپنی زندگی کے لالے پڑ جاتے ہیں تو یہ جفا پیشہ راضی خوشی راجے کے محل میں جا براجمان ہوتی ہے۔دوسری اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بڑے خاندان کی عورت ہے، جس کا نام عظیمہ ہے۔ اس کا خاوند ایک اعلیٰ افسر ہے۔ عظیمہ کی خواہش ہے کہ اس کا خاوند صوبے کا پہلا ہندوستانی چیف کمشنر بنے۔ اس کے لیے یہ اپنے جسم کو سیڑھی کے طور پر استعمال کر کے صوبے کے گورنر سے اپنے خاوند کے لیے یہ عہدہ حاصل کر لیتی ہے۔ ایک دن خاوند اِن کو ہمبستری کی حالت میں دیکھ کر گولی مار دیتا ہے۔زندگی کیا کیا امتحان لیتی ہے۔ کس کس طرح سے سفلی خواہشات انسانوں کو قتل کرواتی آئی ہیں۔ عورت ترقی کرنا چاہتی ہے، بعض اوقات ترقی کرنے کے لیے اپنے خاوند کے سینے پر پائوں رکھ کر ترقی کا زینہ چڑھ جاتی ہے۔کرشن چندر لکھتا ہے:”اولوالعزم عورتیں جو زندگی میں آگے بڑھنا چاہتی ہیں اپنی جنس سے وہی کام لیتی ہیں، جو مرد اپنی عقل سے لیتے ہیں۔ عورت اپنی جنس سے ایک ہتھیار کا کام لیتی ہے، جو کام ان پڑھ درشنا نے کیا، وہی کام پڑھی لکھی عظیمہ کر گزری۔“کرشن چندر نے ان دونوں عورتوں کی جاہ پسندی، حرص و ہوس کو اس چابک دستی اور ہُنرمندی سے بیان کیا ہے کہ محسوس ہوتا ہے جیسے یہ سبھی کچھ ہمارے سامنے ہی وقوع پذیر ہو رہا ہے۔ ان دونوں بے وفا عورتوں کے خاوند (ٹھاکر سنگھ اور گورگانی)، جو اَب سماج کے راندئہ درگاہ اور قانون کو مطلوب ہیں، بھاگ کر جنگل میں پناہ لیتے ہیں اور حُسنِ اتفاق سے وہاں آپس میں مل جاتے ہیں۔ پھر بڑی ہمت، حوصلے کے ساتھ جنگلی جانوروں، پہاڑوں، برف زاروں، بارشوں اور آب شاروں کے درمیان زندگی کے دن بسر کرنے لگتے ہیں۔سودا سلف لانے کے ایک سفر کے دوران ان کو ایک تنہا لاوارث بچی مل جاتی ہے۔ گورگانی اس کی بیٹیوں کی طرح پرورش کرتا ہے۔ یہ اس ناول کا تیسرا نسوانی کردار ہے اور اس کا نام دیپالی ہے۔ دیپالی فطرت کی آغوش میں ایک خودرو جنگلی پودے کی طرح بڑھنے لگتی ہے لیکن اسے اپنی جسمانی تبدیلیوں اور فطری تقاضوں کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔دوسری برف باری سے پہلے کے ایام شروع ہوتے ہی شکاری ٹھاکر سنگھ اپنے جسم و جاں میں ایک تڑپ ایک پکار کو محسوس کرتا ہے۔ اس کے جسمانی فطری تقاضے اسے سونے نہیں دیتے اور سرما کی طویل راتوں میں تنہائی، ذہنی کرب اور کشمکش کا شکار ہو جاتا ہے لیکن خود پر جبر کرتا ہے، خود کو اذیت دیتا ہے اور صبر کرتا ہے۔ جب کہ دیپالی کو بھی پہلی بار تنہائی میں یہ فطری جسمانی اور جبلی تقاضے اپنی طرف بلاتے ہیں اور راتوں کو چین نہیں لینے دیتے، وہ بار بار بستر سے اُٹھ کر بیٹھ جاتی ہے۔ پیاس سے اس کا گلا خشک ہو جاتا ہے۔ آخر ایک رات وہ اپنی جسمانی پکار سے ہار کر مجبور ہو جاتی ہے اورپھر...یہ ناول اسی جذباتی کشمکش، ذہنی کرب اور مناظر فطرت کی تصویرکشی ہے جس کو بڑی فنّی مہارت اور کمال دسترس کے ساتھ کرشن چندر نے صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا ہے۔کرشن چندر کا حقیقت پسندانہ بے باک قلم کیا کیا کرشمے دکھاتا ہے۔ معاشرے کے کون کون سے چھپے گوشے عریاں کر کے پڑھنے والوں کے روبرو پیش کرتا ہے۔ یہ ایک ناول ہی نہیں لاکھوں محروم انسانوں کا نوحہ بھی ہے۔ معاشرے کے کچلے ہوئے انسانوں کی سسکتی ہوئی چیخ و پکار بھی ہے۔میرا یہ دعویٰ ہے کہ زندگی کے وسیع کینوس پر ایسی انوکھی تحریر آپ نے اس سے قبل نہ پڑھی ہو گی۔ دلی جذبات و کیفیات کے تانے بانے سے بُنے گئے کرشن چندر کے اس ناول کو آپ شروع کر کے ایک ہی نشست میں ختم کیے بغیر نہ رہ سکیں گے۔ آزمائش شرط ہے!!شاہد حمید Your one-stop Urdu Book store www.urdubook.com 

Order your copy of Dosri Baraf Bari Se Pehly - دوسری برف باری سے پہلے from Urdu Book to earn reward points along with fast Shipping and chance to win books in the book fair and Urdu bazar online.

Author: KRISHAN CHANDAR
Translator: N/A
Language: Urdu
Pages: 272
Year: 2021
ISBN: 978-969-662-294-9
Categories: Novel

1967ء | پہلی مرتبہ بمبئی سے ماہنامہ ”شاعر“ کرشن چندر نمبر، جلد 38، شمارہ 3-4، میں ”تازہ و غیر مطبوعہ“ کی سُرخی کے ساتھ شائع ہوا۔

1995ء | پاکستان میں پہلی مرتبہ جہلم سے ”بک کارنر“ نے نستعلیق کتابت کروا کے شائع کیاہے۔

2020ء | جہلم سے ”بک کارنر“ نے نستعلیق کمپوزنگ کروا کے دوبارہ جدید ایڈیشن شائع کیا۔

”دوسری برف باری سے پہلے“ اُردو کے لاکھوں شائقین کی طرح میرا بھی پسندیدہ ناول ہے۔ یہ جہاں پست انسانی جذبات، حرص، ہوس، لالچ، جاہ پسندی اور انتقام کی داستان ہے وہاں اعلیٰ ترین انسانی اوصاف انس، پیار، محبت، ہمدردی اور انسان دوستی کا مرقع بھی ہے۔ انسانی فطرت کے انتہائی قریب جس میں ایک ایک لفظ سچائی کی زبان میں پیش کیا گیا ہے۔
ناول میں مختلف طبقاتی پس منظر سے تعلق رکھنے والی دو عورتوں کا کردار بیان کیا گیا ہے جو ایک جیسی جاہ پسندی، لالچ اور حرص و ہوس کا شکار ہیں۔ ہر قیمت پر آگے بڑھنے کی ہوس کے لیے وہ اپنی عصمتوں کو بھینٹ چڑھانے سے بھی دریغ نہیں کرتیں۔ ان میں سے ایک خانہ بدوش اور ان پڑھ عورت درشنا ہے جس نے اپنی آنکھوں میں محل دو محلوں کے خواب سجا رکھے ہیں۔ اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے اپنی محبت اور اپنے محبوب خاوند کی زندگی کو بھی دائو پر لگا دیتی ہے۔ جب خاوند (ٹھاکر سنگھ) کو اپنی زندگی کے لالے پڑ جاتے ہیں تو یہ جفا پیشہ راضی خوشی راجے کے محل میں جا براجمان ہوتی ہے۔
دوسری اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بڑے خاندان کی عورت ہے، جس کا نام عظیمہ ہے۔ اس کا خاوند ایک اعلیٰ افسر ہے۔ عظیمہ کی خواہش ہے کہ اس کا خاوند صوبے کا پہلا ہندوستانی چیف کمشنر بنے۔ اس کے لیے یہ اپنے جسم کو سیڑھی کے طور پر استعمال کر کے صوبے کے گورنر سے اپنے خاوند کے لیے یہ عہدہ حاصل کر لیتی ہے۔ ایک دن خاوند اِن کو ہمبستری کی حالت میں دیکھ کر گولی مار دیتا ہے۔
زندگی کیا کیا امتحان لیتی ہے۔ کس کس طرح سے سفلی خواہشات انسانوں کو قتل کرواتی آئی ہیں۔ عورت ترقی کرنا چاہتی ہے، بعض اوقات ترقی کرنے کے لیے اپنے خاوند کے سینے پر پائوں رکھ کر ترقی کا زینہ چڑھ جاتی ہے۔
کرشن چندر لکھتا ہے:
”اولوالعزم عورتیں جو زندگی میں آگے بڑھنا چاہتی ہیں اپنی جنس سے وہی کام لیتی ہیں، جو مرد اپنی عقل سے لیتے ہیں۔ عورت اپنی جنس سے ایک ہتھیار کا کام لیتی ہے، جو کام ان پڑھ درشنا نے کیا، وہی کام پڑھی لکھی عظیمہ کر گزری۔“
کرشن چندر نے ان دونوں عورتوں کی جاہ پسندی، حرص و ہوس کو اس چابک دستی اور ہُنرمندی سے بیان کیا ہے کہ محسوس ہوتا ہے جیسے یہ سبھی کچھ ہمارے سامنے ہی وقوع پذیر ہو رہا ہے۔ ان دونوں بے وفا عورتوں کے خاوند (ٹھاکر سنگھ اور گورگانی)، جو اَب سماج کے راندئہ درگاہ اور قانون کو مطلوب ہیں، بھاگ کر جنگل میں پناہ لیتے ہیں اور حُسنِ اتفاق سے وہاں آپس میں مل جاتے ہیں۔ پھر بڑی ہمت، حوصلے کے ساتھ جنگلی جانوروں، پہاڑوں، برف زاروں، بارشوں اور آب شاروں کے درمیان زندگی کے دن بسر کرنے لگتے ہیں۔
سودا سلف لانے کے ایک سفر کے دوران ان کو ایک تنہا لاوارث بچی مل جاتی ہے۔ گورگانی اس کی بیٹیوں کی طرح پرورش کرتا ہے۔ یہ اس ناول کا تیسرا نسوانی کردار ہے اور اس کا نام دیپالی ہے۔ دیپالی فطرت کی آغوش میں ایک خودرو جنگلی پودے کی طرح بڑھنے لگتی ہے لیکن اسے اپنی جسمانی تبدیلیوں اور فطری تقاضوں کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔
دوسری برف باری سے پہلے کے ایام شروع ہوتے ہی شکاری ٹھاکر سنگھ اپنے جسم و جاں میں ایک تڑپ ایک پکار کو محسوس کرتا ہے۔ اس کے جسمانی فطری تقاضے اسے سونے نہیں دیتے اور سرما کی طویل راتوں میں تنہائی، ذہنی کرب اور کشمکش کا شکار ہو جاتا ہے لیکن خود پر جبر کرتا ہے، خود کو اذیت دیتا ہے اور صبر کرتا ہے۔ جب کہ دیپالی کو بھی پہلی بار تنہائی میں یہ فطری جسمانی اور جبلی تقاضے اپنی طرف بلاتے ہیں اور راتوں کو چین نہیں لینے دیتے، وہ بار بار بستر سے اُٹھ کر بیٹھ جاتی ہے۔ پیاس سے اس کا گلا خشک ہو جاتا ہے۔ آخر ایک رات وہ اپنی جسمانی پکار سے ہار کر مجبور ہو جاتی ہے اورپھر...
یہ ناول اسی جذباتی کشمکش، ذہنی کرب اور مناظر فطرت کی تصویرکشی ہے جس کو بڑی فنّی مہارت اور کمال دسترس کے ساتھ کرشن چندر نے صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا ہے۔
کرشن چندر کا حقیقت پسندانہ بے باک قلم کیا کیا کرشمے دکھاتا ہے۔ معاشرے کے کون کون سے چھپے گوشے عریاں کر کے پڑھنے والوں کے روبرو پیش کرتا ہے۔ یہ ایک ناول ہی نہیں لاکھوں محروم انسانوں کا نوحہ بھی ہے۔ معاشرے کے کچلے ہوئے انسانوں کی سسکتی ہوئی چیخ و پکار بھی ہے۔
میرا یہ دعویٰ ہے کہ زندگی کے وسیع کینوس پر ایسی انوکھی تحریر آپ نے اس سے قبل نہ پڑھی ہو گی۔ دلی جذبات و کیفیات کے تانے بانے سے بُنے گئے کرشن چندر کے اس ناول کو آپ شروع کر کے ایک ہی نشست میں ختم کیے بغیر نہ رہ سکیں گے۔ آزمائش شرط ہے!!

شاہد حمید

Your one-stop Urdu Book store www.urdubook.com 

Order your copy of Dosri Baraf Bari Se Pehly - دوسری برف باری سے پہلے from Urdu Book to earn reward points along with fast Shipping and chance to win books in the book fair and Urdu bazar online.

Author: KRISHAN CHANDAR
Translator: N/A
Language: Urdu
Pages: 272
Year: 2021
ISBN: 978-969-662-294-9
Categories: Novel

1967ء | پہلی مرتبہ بمبئی سے ماہنامہ ”شاعر“ کرشن چندر نمبر، جلد 38، شمارہ 3-4، میں ”تازہ و غیر مطبوعہ“ کی سُرخی کے ساتھ شائع ہوا۔

1995ء | پاکستان میں پہلی مرتبہ جہلم سے ”بک کارنر“ نے نستعلیق کتابت کروا کے شائع کیاہے۔

2020ء | جہلم سے ”بک کارنر“ نے نستعلیق کمپوزنگ کروا کے دوبارہ جدید ایڈیشن شائع کیا۔

”دوسری برف باری سے پہلے“ اُردو کے لاکھوں شائقین کی طرح میرا بھی پسندیدہ ناول ہے۔ یہ جہاں پست انسانی جذبات، حرص، ہوس، لالچ، جاہ پسندی اور انتقام کی داستان ہے وہاں اعلیٰ ترین انسانی اوصاف انس، پیار، محبت، ہمدردی اور انسان دوستی کا مرقع بھی ہے۔ انسانی فطرت کے انتہائی قریب جس میں ایک ایک لفظ سچائی کی زبان میں پیش کیا گیا ہے۔
ناول میں مختلف طبقاتی پس منظر سے تعلق رکھنے والی دو عورتوں کا کردار بیان کیا گیا ہے جو ایک جیسی جاہ پسندی، لالچ اور حرص و ہوس کا شکار ہیں۔ ہر قیمت پر آگے بڑھنے کی ہوس کے لیے وہ اپنی عصمتوں کو بھینٹ چڑھانے سے بھی دریغ نہیں کرتیں۔ ان میں سے ایک خانہ بدوش اور ان پڑھ عورت درشنا ہے جس نے اپنی آنکھوں میں محل دو محلوں کے خواب سجا رکھے ہیں۔ اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے اپنی محبت اور اپنے محبوب خاوند کی زندگی کو بھی دائو پر لگا دیتی ہے۔ جب خاوند (ٹھاکر سنگھ) کو اپنی زندگی کے لالے پڑ جاتے ہیں تو یہ جفا پیشہ راضی خوشی راجے کے محل میں جا براجمان ہوتی ہے۔
دوسری اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بڑے خاندان کی عورت ہے، جس کا نام عظیمہ ہے۔ اس کا خاوند ایک اعلیٰ افسر ہے۔ عظیمہ کی خواہش ہے کہ اس کا خاوند صوبے کا پہلا ہندوستانی چیف کمشنر بنے۔ اس کے لیے یہ اپنے جسم کو سیڑھی کے طور پر استعمال کر کے صوبے کے گورنر سے اپنے خاوند کے لیے یہ عہدہ حاصل کر لیتی ہے۔ ایک دن خاوند اِن کو ہمبستری کی حالت میں دیکھ کر گولی مار دیتا ہے۔
زندگی کیا کیا امتحان لیتی ہے۔ کس کس طرح سے سفلی خواہشات انسانوں کو قتل کرواتی آئی ہیں۔ عورت ترقی کرنا چاہتی ہے، بعض اوقات ترقی کرنے کے لیے اپنے خاوند کے سینے پر پائوں رکھ کر ترقی کا زینہ چڑھ جاتی ہے۔
کرشن چندر لکھتا ہے:
”اولوالعزم عورتیں جو زندگی میں آگے بڑھنا چاہتی ہیں اپنی جنس سے وہی کام لیتی ہیں، جو مرد اپنی عقل سے لیتے ہیں۔ عورت اپنی جنس سے ایک ہتھیار کا کام لیتی ہے، جو کام ان پڑھ درشنا نے کیا، وہی کام پڑھی لکھی عظیمہ کر گزری۔“
کرشن چندر نے ان دونوں عورتوں کی جاہ پسندی، حرص و ہوس کو اس چابک دستی اور ہُنرمندی سے بیان کیا ہے کہ محسوس ہوتا ہے جیسے یہ سبھی کچھ ہمارے سامنے ہی وقوع پذیر ہو رہا ہے۔ ان دونوں بے وفا عورتوں کے خاوند (ٹھاکر سنگھ اور گورگانی)، جو اَب سماج کے راندئہ درگاہ اور قانون کو مطلوب ہیں، بھاگ کر جنگل میں پناہ لیتے ہیں اور حُسنِ اتفاق سے وہاں آپس میں مل جاتے ہیں۔ پھر بڑی ہمت، حوصلے کے ساتھ جنگلی جانوروں، پہاڑوں، برف زاروں، بارشوں اور آب شاروں کے درمیان زندگی کے دن بسر کرنے لگتے ہیں۔
سودا سلف لانے کے ایک سفر کے دوران ان کو ایک تنہا لاوارث بچی مل جاتی ہے۔ گورگانی اس کی بیٹیوں کی طرح پرورش کرتا ہے۔ یہ اس ناول کا تیسرا نسوانی کردار ہے اور اس کا نام دیپالی ہے۔ دیپالی فطرت کی آغوش میں ایک خودرو جنگلی پودے کی طرح بڑھنے لگتی ہے لیکن اسے اپنی جسمانی تبدیلیوں اور فطری تقاضوں کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔
دوسری برف باری سے پہلے کے ایام شروع ہوتے ہی شکاری ٹھاکر سنگھ اپنے جسم و جاں میں ایک تڑپ ایک پکار کو محسوس کرتا ہے۔ اس کے جسمانی فطری تقاضے اسے سونے نہیں دیتے اور سرما کی طویل راتوں میں تنہائی، ذہنی کرب اور کشمکش کا شکار ہو جاتا ہے لیکن خود پر جبر کرتا ہے، خود کو اذیت دیتا ہے اور صبر کرتا ہے۔ جب کہ دیپالی کو بھی پہلی بار تنہائی میں یہ فطری جسمانی اور جبلی تقاضے اپنی طرف بلاتے ہیں اور راتوں کو چین نہیں لینے دیتے، وہ بار بار بستر سے اُٹھ کر بیٹھ جاتی ہے۔ پیاس سے اس کا گلا خشک ہو جاتا ہے۔ آخر ایک رات وہ اپنی جسمانی پکار سے ہار کر مجبور ہو جاتی ہے اورپھر...
یہ ناول اسی جذباتی کشمکش، ذہنی کرب اور مناظر فطرت کی تصویرکشی ہے جس کو بڑی فنّی مہارت اور کمال دسترس کے ساتھ کرشن چندر نے صفحۂ قرطاس پر منتقل کیا ہے۔
کرشن چندر کا حقیقت پسندانہ بے باک قلم کیا کیا کرشمے دکھاتا ہے۔ معاشرے کے کون کون سے چھپے گوشے عریاں کر کے پڑھنے والوں کے روبرو پیش کرتا ہے۔ یہ ایک ناول ہی نہیں لاکھوں محروم انسانوں کا نوحہ بھی ہے۔ معاشرے کے کچلے ہوئے انسانوں کی سسکتی ہوئی چیخ و پکار بھی ہے۔
میرا یہ دعویٰ ہے کہ زندگی کے وسیع کینوس پر ایسی انوکھی تحریر آپ نے اس سے قبل نہ پڑھی ہو گی۔ دلی جذبات و کیفیات کے تانے بانے سے بُنے گئے کرشن چندر کے اس ناول کو آپ شروع کر کے ایک ہی نشست میں ختم کیے بغیر نہ رہ سکیں گے۔ آزمائش شرط ہے!!

شاہد حمید

Your one-stop Urdu Book store www.urdubook.com