Bhook - بھوک Book Corner

Bhook - بھوک

Rs.400 40000
  • Successful pre-order.Thanks for contacting us!
  • Order within
Book Title
Bhook - بھوک
Author
Book Corner
Order your copy of Bhook - بھوک from Urdu Book to earn reward points along with fast Shipping and chance to win books in the book fair and Urdu bazar online. Author: KNUT HAMSUNTranslator: MAKHMOOR JALANDHARILanguage: UrduPages: 204Year: 2020ISBN: 978-969-662-283-3Categories: WORLD FICTION IN URDU NOVEL WORLDWIDE CLASSICS TRANSLATIONS ناروے کے ناول نگار کنوٹ ہامسن کا سب سے مشہور ناول ”بھوک“ 1890ء میں جب منظرِ عام پر آیا تو ناروے کے اَدبی اور سرکاری حلقوں میں ہنگامہ بپا ہو گیا۔ یہ ناول گھناؤنی سماجی زندگی پر ایک کاری ضرب تھا اور اس کے چَھپنے پر بہت لے دے ہوئی۔ تنقید کی بارش چاروں طرف سے برسنے لگی اور کنوٹ ہامسن کو ایک بہت بڑا خطرہ قرار دے دیا گیا۔ اُن دنوں میں ہامسن کا پرستار بننے کے لیے بڑے حوصلے کی ضرورت تھی۔ اس کی تحریر میں کچھ ایسی سرکشی اور بغاوت تھی کہ ہر شخص کے دل میں عناد کی آگ بھڑک اُٹھتی تھی۔ اس نے اپنے وقت کی سربرآوردہ اَدبی شخصیات کے بُت توڑ کر رکھ دیے۔ نقادوں کی مخالفت کے باوجود کنوٹ ہامسن ان پر ہنستا ہوا آگے ہی آگے بڑھتا رہا۔ آخرکار نقادوں کو بھی تسلیم کرنا پڑا کہ ہامسن، تحریر کے تیکھے پن اور جاندار اُسلوب کے حوالے سے اپنا جواب نہیں رکھتا۔ ”بھوک“ کنوٹ ہامسن کا پہلا ناول ہے اور اس کا عظیم ترین کارنامہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس ناول میں ہامسن کی ژرف نگاہی اپنی بلندی پر ہے۔ اُسے پوری انسانیت کے تاریک کونے کریدنے والا کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جعل سازیوں اور غلاظتوں پر بے رحمی سے حملہ آور ہوتا ہے۔ ”بھوک“ ایک بھوکی رُوح کی دل دوز پکار ہے۔ آج جب کہ دیس دیس میں بھوک کو پھیلایا جا رہا ہے اور استحصالی ہتھکنڈوں سے کام لیتے ہوئے قحط پیدا کیے جا رہے ہیں، اس ناول کا مطالعہ نہ صرف دلچسپ ثابت ہو گا بلکہ بھوک کے جنم داتاؤں کے مکروہ چہروں پر سے نقاب بھی اُٹھائے گا۔-----کنوٹ پیڈرسن، جو کنوٹ ہامسن کے نام سے مشہور ہوئے، نارویجن مصنف ہیں جن کا کام انفرادیت پسندی کا انعکاس اور صنعتی تہذیب کی تردید کرتا ہے۔ ان کا اَدبی کیریئر ستر سال سے زائد عرصے پر محیط ہے اور ان کے موضوعات، تناظر و ماحول کے حوالے سے تنوع رکھتے ہیں۔ ہامسن نے ناولز کے علاوہ ایک شعری مجموعہ، کچھ افسانے و ڈرامے اور چند مضامین بھی لکھے۔ باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہ کی لیکن کرسٹیانا یونیورسٹی اوسلو میں داخل ہوئے اور صحافی بننے کا سوچنے لگے۔ تاہم جلد ہی امریکا چلے گئے اور وہاں مختلف پیشے اپنانے کے ساتھ ساتھ لکھتے بھی رہے۔ 1888ء میں واپس ناروے آئے اور اپنا سارا وقت لکھنے میں صَرف کرنے لگے۔ نوجوانی میں حقیقت پسندی اور فطرت پسندی پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ جدیدیت پسند ادب کا مرکزی مقصد انسانی ذہن کی ژولیدگیاں ہونا چاہیے اور اہلِ قلم کا کام ”خون کی سرگوشیاں“ اور ”ہڈیوں کے گودے کی التجا“ بیان کرنا ہونا چاہیے۔ ہامسن کو بیسویں صدی کے آغاز پر نو رومانوی بغاوت کا قائد خیال کیا جاتا ہے۔ان کا پہلا ناول Hunger (1890) تھا، جس میں فاقہ زدگی کے نفسیاتی اثرات کا مطالعہ کیا گیا۔ اس کے بعد دیگر ناول آئے:Pan (1890)Under the Autumn Star (1906)A Wanderer Plays on Muted Strings (1909)Children of the Age (1913)Growth of the Soil (1917)مؤخر الذکر ناول ان کے بہترین کام میں شمار ہوتا ہے جس پر انہیں 1920ء میں نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ وہ زندگی بھر جمہوریت کے شدید مخالف رہے۔ دوسری عالمی جنگ میں ناروے پر جرمن حملے کی کُھلے عام حمایت کی۔ وہ ہٹلر سمیت اعلیٰ نازی افسروں سے ملتے جلتے رہے۔ پروپیگنڈا کے نازی وزیر جوزف گوئبلز نے اپنی ڈائری میں ان کے ساتھ ملاقات کے متعلق ایک طویل نوٹ لکھا۔ 1940ء میں ہامسن نے لکھا کہ جرمن لوگ ”ہمارے لیے لڑ رہے ہیں۔“ ہٹلر کی موت کے بعد اُنہوں نے تعزیت نامہ لکھا جس میں اُنہیں ”نوعِ انسانی کا جنگجو“ اور ”تمام اقوام کے لیے عدل کی انجیل کا مبلغ“ قرار دیا۔ 1946ء میں ان کے خلاف مقدمہ چلا کر 575000 کرونر جرمانے کی سزا دی گئی جسے ناروے کی سپریم کورٹ نے گھٹا کر 325000 کرونر کر دیا۔ اپنی حیات کے دوران اِن کے نظریات اہلِ ناروے کے لیے شدید دُکھ کا باعث رہے۔ 19 فروری 1952ء کو 92 سال کی عمر میں گریمستا (ناروے) میں انتقال کیا۔----مخمور جالندھری کا اصل نام گوربخش سنگھ تھا۔ وہ ایک باکمال مترجم ہونے کے ساتھ ساتھ بہت عمدہ نظم نگار تھے۔ ان کی شاعری کا آغاز 1937ء میں ہوا۔ انھوں نے متعدد قلمی ناموں سے ”تھرلر“ ناول، ریڈیائی ڈرامے اور متفرق تحریریں لکھیں۔ کرنل رنجیت، زور آور سنگھ انھی کے قلمی نام ہیں۔ رُوسی ادب کے کلاسیکی شاہکاروں کو اُردو میں منتقل کرنے کا سب سے پہلا قدم مخمور جالندھری نے اٹھایا۔ میخائیل شو لوخوف کے ”کنوارے کھیت“ اور ”اور ڈان بہتا رہا“ انھی کے فن ترجمہ کے شاہکار ہیں۔ نیکوس کیزنزاکیس کے ”زوربا یونانی“، میکسم گورکی کے ”دیوانہ ہے دیوانہ“ کے ساتھ ساتھ عالمی ادب کے کئی شاہکار ناولوں کو اُردو کا پیراہن عطا کیا۔ انھوں نے ٹالسٹائی کے عظیم ناول ”جنگ اور امن“ کو بھی اُردو میں منتقل کیا تھا مگر پبلشر کی اچانک موت نے یہ ناول مسوّدوں کی بوسیدہ الماری میں دائمی طور پر مقفل کر دیا۔ امرتا پریتم کی شاعری اور ناول کو بھی اُردو قالب میں ڈھالا۔ مخمور جالندھری عمر بھر علم و ادب اور صحافت سے وابستہ رہے۔ ان کا انتقال یکم جنوری 1979ء کو ہوا۔ کنوٹ ہامسن کے ناول ”بھوک“ کا ترجمہ اپنی زبان، اسلوب اور بیان کی بے پناہ طاقت کے باعث ترجمہ نگاری کی دُنیا میں ایک معیار قائم کرتا نظر آتا ہے۔ Your one-stop Urdu Book store www.urdubook.com 

Order your copy of Bhook - بھوک from Urdu Book to earn reward points along with fast Shipping and chance to win books in the book fair and Urdu bazar online.

Author: KNUT HAMSUN
Translator: MAKHMOOR JALANDHARI
Language: Urdu
Pages: 204
Year: 2020
ISBN: 978-969-662-283-3
Categories: WORLD FICTION IN URDU NOVEL WORLDWIDE CLASSICS TRANSLATIONS

ناروے کے ناول نگار کنوٹ ہامسن کا سب سے مشہور ناول ”بھوک“ 1890ء میں جب منظرِ عام پر آیا تو ناروے کے اَدبی اور سرکاری حلقوں میں ہنگامہ بپا ہو گیا۔ یہ ناول گھناؤنی سماجی زندگی پر ایک کاری ضرب تھا اور اس کے چَھپنے پر بہت لے دے ہوئی۔ تنقید کی بارش چاروں طرف سے برسنے لگی اور کنوٹ ہامسن کو ایک بہت بڑا خطرہ قرار دے دیا گیا۔ اُن دنوں میں ہامسن کا پرستار بننے کے لیے بڑے حوصلے کی ضرورت تھی۔ اس کی تحریر میں کچھ ایسی سرکشی اور بغاوت تھی کہ ہر شخص کے دل میں عناد کی آگ بھڑک اُٹھتی تھی۔ اس نے اپنے وقت کی سربرآوردہ اَدبی شخصیات کے بُت توڑ کر رکھ دیے۔ نقادوں کی مخالفت کے باوجود کنوٹ ہامسن ان پر ہنستا ہوا آگے ہی آگے بڑھتا رہا۔ آخرکار نقادوں کو بھی تسلیم کرنا پڑا کہ ہامسن، تحریر کے تیکھے پن اور جاندار اُسلوب کے حوالے سے اپنا جواب نہیں رکھتا۔ ”بھوک“ کنوٹ ہامسن کا پہلا ناول ہے اور اس کا عظیم ترین کارنامہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس ناول میں ہامسن کی ژرف نگاہی اپنی بلندی پر ہے۔ اُسے پوری انسانیت کے تاریک کونے کریدنے والا کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جعل سازیوں اور غلاظتوں پر بے رحمی سے حملہ آور ہوتا ہے۔ ”بھوک“ ایک بھوکی رُوح کی دل دوز پکار ہے۔ آج جب کہ دیس دیس میں بھوک کو پھیلایا جا رہا ہے اور استحصالی ہتھکنڈوں سے کام لیتے ہوئے قحط پیدا کیے جا رہے ہیں، اس ناول کا مطالعہ نہ صرف دلچسپ ثابت ہو گا بلکہ بھوک کے جنم داتاؤں کے مکروہ چہروں پر سے نقاب بھی اُٹھائے گا۔

-----

کنوٹ پیڈرسن، جو کنوٹ ہامسن کے نام سے مشہور ہوئے، نارویجن مصنف ہیں جن کا کام انفرادیت پسندی کا انعکاس اور صنعتی تہذیب کی تردید کرتا ہے۔ ان کا اَدبی کیریئر ستر سال سے زائد عرصے پر محیط ہے اور ان کے موضوعات، تناظر و ماحول کے حوالے سے تنوع رکھتے ہیں۔ ہامسن نے ناولز کے علاوہ ایک شعری مجموعہ، کچھ افسانے و ڈرامے اور چند مضامین بھی لکھے۔ باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہ کی لیکن کرسٹیانا یونیورسٹی اوسلو میں داخل ہوئے اور صحافی بننے کا سوچنے لگے۔ تاہم جلد ہی امریکا چلے گئے اور وہاں مختلف پیشے اپنانے کے ساتھ ساتھ لکھتے بھی رہے۔ 1888ء میں واپس ناروے آئے اور اپنا سارا وقت لکھنے میں صَرف کرنے لگے۔ نوجوانی میں حقیقت پسندی اور فطرت پسندی پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ جدیدیت پسند ادب کا مرکزی مقصد انسانی ذہن کی ژولیدگیاں ہونا چاہیے اور اہلِ قلم کا کام ”خون کی سرگوشیاں“ اور ”ہڈیوں کے گودے کی التجا“ بیان کرنا ہونا چاہیے۔ ہامسن کو بیسویں صدی کے آغاز پر نو رومانوی بغاوت کا قائد خیال کیا جاتا ہے۔
ان کا پہلا ناول Hunger (1890) تھا، جس میں فاقہ زدگی کے نفسیاتی اثرات کا مطالعہ کیا گیا۔ اس کے بعد دیگر ناول آئے:
Pan (1890)
Under the Autumn Star (1906)
A Wanderer Plays on Muted Strings (1909)
Children of the Age (1913)
Growth of the Soil (1917)
مؤخر الذکر ناول ان کے بہترین کام میں شمار ہوتا ہے جس پر انہیں 1920ء میں نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ وہ زندگی بھر جمہوریت کے شدید مخالف رہے۔ دوسری عالمی جنگ میں ناروے پر جرمن حملے کی کُھلے عام حمایت کی۔ وہ ہٹلر سمیت اعلیٰ نازی افسروں سے ملتے جلتے رہے۔ پروپیگنڈا کے نازی وزیر جوزف گوئبلز نے اپنی ڈائری میں ان کے ساتھ ملاقات کے متعلق ایک طویل نوٹ لکھا۔ 1940ء میں ہامسن نے لکھا کہ جرمن لوگ ”ہمارے لیے لڑ رہے ہیں۔“ ہٹلر کی موت کے بعد اُنہوں نے تعزیت نامہ لکھا جس میں اُنہیں ”نوعِ انسانی کا جنگجو“ اور ”تمام اقوام کے لیے عدل کی انجیل کا مبلغ“ قرار دیا۔ 1946ء میں ان کے خلاف مقدمہ چلا کر 575000 کرونر جرمانے کی سزا دی گئی جسے ناروے کی سپریم کورٹ نے گھٹا کر 325000 کرونر کر دیا۔ اپنی حیات کے دوران اِن کے نظریات اہلِ ناروے کے لیے شدید دُکھ کا باعث رہے۔ 19 فروری 1952ء کو 92 سال کی عمر میں گریمستا (ناروے) میں انتقال کیا۔

----

مخمور جالندھری کا اصل نام گوربخش سنگھ تھا۔ وہ ایک باکمال مترجم ہونے کے ساتھ ساتھ بہت عمدہ نظم نگار تھے۔ ان کی شاعری کا آغاز 1937ء میں ہوا۔ انھوں نے متعدد قلمی ناموں سے ”تھرلر“ ناول، ریڈیائی ڈرامے اور متفرق تحریریں لکھیں۔ کرنل رنجیت، زور آور سنگھ انھی کے قلمی نام ہیں۔ رُوسی ادب کے کلاسیکی شاہکاروں کو اُردو میں منتقل کرنے کا سب سے پہلا قدم مخمور جالندھری نے اٹھایا۔ میخائیل شو لوخوف کے ”کنوارے کھیت“ اور ”اور ڈان بہتا رہا“ انھی کے فن ترجمہ کے شاہکار ہیں۔ نیکوس کیزنزاکیس کے ”زوربا یونانی“، میکسم گورکی کے ”دیوانہ ہے دیوانہ“ کے ساتھ ساتھ عالمی ادب کے کئی شاہکار ناولوں کو اُردو کا پیراہن عطا کیا۔ انھوں نے ٹالسٹائی کے عظیم ناول ”جنگ اور امن“ کو بھی اُردو میں منتقل کیا تھا مگر پبلشر کی اچانک موت نے یہ ناول مسوّدوں کی بوسیدہ الماری میں دائمی طور پر مقفل کر دیا۔ امرتا پریتم کی شاعری اور ناول کو بھی اُردو قالب میں ڈھالا۔ مخمور جالندھری عمر بھر علم و ادب اور صحافت سے وابستہ رہے۔ ان کا انتقال یکم جنوری 1979ء کو ہوا۔ کنوٹ ہامسن کے ناول ”بھوک“ کا ترجمہ اپنی زبان، اسلوب اور بیان کی بے پناہ طاقت کے باعث ترجمہ نگاری کی دُنیا میں ایک معیار قائم کرتا نظر آتا ہے۔

Your one-stop Urdu Book store www.urdubook.com 

Order your copy of Bhook - بھوک from Urdu Book to earn reward points along with fast Shipping and chance to win books in the book fair and Urdu bazar online.

Author: KNUT HAMSUN
Translator: MAKHMOOR JALANDHARI
Language: Urdu
Pages: 204
Year: 2020
ISBN: 978-969-662-283-3
Categories: WORLD FICTION IN URDU NOVEL WORLDWIDE CLASSICS TRANSLATIONS

ناروے کے ناول نگار کنوٹ ہامسن کا سب سے مشہور ناول ”بھوک“ 1890ء میں جب منظرِ عام پر آیا تو ناروے کے اَدبی اور سرکاری حلقوں میں ہنگامہ بپا ہو گیا۔ یہ ناول گھناؤنی سماجی زندگی پر ایک کاری ضرب تھا اور اس کے چَھپنے پر بہت لے دے ہوئی۔ تنقید کی بارش چاروں طرف سے برسنے لگی اور کنوٹ ہامسن کو ایک بہت بڑا خطرہ قرار دے دیا گیا۔ اُن دنوں میں ہامسن کا پرستار بننے کے لیے بڑے حوصلے کی ضرورت تھی۔ اس کی تحریر میں کچھ ایسی سرکشی اور بغاوت تھی کہ ہر شخص کے دل میں عناد کی آگ بھڑک اُٹھتی تھی۔ اس نے اپنے وقت کی سربرآوردہ اَدبی شخصیات کے بُت توڑ کر رکھ دیے۔ نقادوں کی مخالفت کے باوجود کنوٹ ہامسن ان پر ہنستا ہوا آگے ہی آگے بڑھتا رہا۔ آخرکار نقادوں کو بھی تسلیم کرنا پڑا کہ ہامسن، تحریر کے تیکھے پن اور جاندار اُسلوب کے حوالے سے اپنا جواب نہیں رکھتا۔ ”بھوک“ کنوٹ ہامسن کا پہلا ناول ہے اور اس کا عظیم ترین کارنامہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اس ناول میں ہامسن کی ژرف نگاہی اپنی بلندی پر ہے۔ اُسے پوری انسانیت کے تاریک کونے کریدنے والا کہا جاتا ہے کیونکہ وہ جعل سازیوں اور غلاظتوں پر بے رحمی سے حملہ آور ہوتا ہے۔ ”بھوک“ ایک بھوکی رُوح کی دل دوز پکار ہے۔ آج جب کہ دیس دیس میں بھوک کو پھیلایا جا رہا ہے اور استحصالی ہتھکنڈوں سے کام لیتے ہوئے قحط پیدا کیے جا رہے ہیں، اس ناول کا مطالعہ نہ صرف دلچسپ ثابت ہو گا بلکہ بھوک کے جنم داتاؤں کے مکروہ چہروں پر سے نقاب بھی اُٹھائے گا۔

-----

کنوٹ پیڈرسن، جو کنوٹ ہامسن کے نام سے مشہور ہوئے، نارویجن مصنف ہیں جن کا کام انفرادیت پسندی کا انعکاس اور صنعتی تہذیب کی تردید کرتا ہے۔ ان کا اَدبی کیریئر ستر سال سے زائد عرصے پر محیط ہے اور ان کے موضوعات، تناظر و ماحول کے حوالے سے تنوع رکھتے ہیں۔ ہامسن نے ناولز کے علاوہ ایک شعری مجموعہ، کچھ افسانے و ڈرامے اور چند مضامین بھی لکھے۔ باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہ کی لیکن کرسٹیانا یونیورسٹی اوسلو میں داخل ہوئے اور صحافی بننے کا سوچنے لگے۔ تاہم جلد ہی امریکا چلے گئے اور وہاں مختلف پیشے اپنانے کے ساتھ ساتھ لکھتے بھی رہے۔ 1888ء میں واپس ناروے آئے اور اپنا سارا وقت لکھنے میں صَرف کرنے لگے۔ نوجوانی میں حقیقت پسندی اور فطرت پسندی پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ جدیدیت پسند ادب کا مرکزی مقصد انسانی ذہن کی ژولیدگیاں ہونا چاہیے اور اہلِ قلم کا کام ”خون کی سرگوشیاں“ اور ”ہڈیوں کے گودے کی التجا“ بیان کرنا ہونا چاہیے۔ ہامسن کو بیسویں صدی کے آغاز پر نو رومانوی بغاوت کا قائد خیال کیا جاتا ہے۔
ان کا پہلا ناول Hunger (1890) تھا، جس میں فاقہ زدگی کے نفسیاتی اثرات کا مطالعہ کیا گیا۔ اس کے بعد دیگر ناول آئے:
Pan (1890)
Under the Autumn Star (1906)
A Wanderer Plays on Muted Strings (1909)
Children of the Age (1913)
Growth of the Soil (1917)
مؤخر الذکر ناول ان کے بہترین کام میں شمار ہوتا ہے جس پر انہیں 1920ء میں نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ وہ زندگی بھر جمہوریت کے شدید مخالف رہے۔ دوسری عالمی جنگ میں ناروے پر جرمن حملے کی کُھلے عام حمایت کی۔ وہ ہٹلر سمیت اعلیٰ نازی افسروں سے ملتے جلتے رہے۔ پروپیگنڈا کے نازی وزیر جوزف گوئبلز نے اپنی ڈائری میں ان کے ساتھ ملاقات کے متعلق ایک طویل نوٹ لکھا۔ 1940ء میں ہامسن نے لکھا کہ جرمن لوگ ”ہمارے لیے لڑ رہے ہیں۔“ ہٹلر کی موت کے بعد اُنہوں نے تعزیت نامہ لکھا جس میں اُنہیں ”نوعِ انسانی کا جنگجو“ اور ”تمام اقوام کے لیے عدل کی انجیل کا مبلغ“ قرار دیا۔ 1946ء میں ان کے خلاف مقدمہ چلا کر 575000 کرونر جرمانے کی سزا دی گئی جسے ناروے کی سپریم کورٹ نے گھٹا کر 325000 کرونر کر دیا۔ اپنی حیات کے دوران اِن کے نظریات اہلِ ناروے کے لیے شدید دُکھ کا باعث رہے۔ 19 فروری 1952ء کو 92 سال کی عمر میں گریمستا (ناروے) میں انتقال کیا۔

----

مخمور جالندھری کا اصل نام گوربخش سنگھ تھا۔ وہ ایک باکمال مترجم ہونے کے ساتھ ساتھ بہت عمدہ نظم نگار تھے۔ ان کی شاعری کا آغاز 1937ء میں ہوا۔ انھوں نے متعدد قلمی ناموں سے ”تھرلر“ ناول، ریڈیائی ڈرامے اور متفرق تحریریں لکھیں۔ کرنل رنجیت، زور آور سنگھ انھی کے قلمی نام ہیں۔ رُوسی ادب کے کلاسیکی شاہکاروں کو اُردو میں منتقل کرنے کا سب سے پہلا قدم مخمور جالندھری نے اٹھایا۔ میخائیل شو لوخوف کے ”کنوارے کھیت“ اور ”اور ڈان بہتا رہا“ انھی کے فن ترجمہ کے شاہکار ہیں۔ نیکوس کیزنزاکیس کے ”زوربا یونانی“، میکسم گورکی کے ”دیوانہ ہے دیوانہ“ کے ساتھ ساتھ عالمی ادب کے کئی شاہکار ناولوں کو اُردو کا پیراہن عطا کیا۔ انھوں نے ٹالسٹائی کے عظیم ناول ”جنگ اور امن“ کو بھی اُردو میں منتقل کیا تھا مگر پبلشر کی اچانک موت نے یہ ناول مسوّدوں کی بوسیدہ الماری میں دائمی طور پر مقفل کر دیا۔ امرتا پریتم کی شاعری اور ناول کو بھی اُردو قالب میں ڈھالا۔ مخمور جالندھری عمر بھر علم و ادب اور صحافت سے وابستہ رہے۔ ان کا انتقال یکم جنوری 1979ء کو ہوا۔ کنوٹ ہامسن کے ناول ”بھوک“ کا ترجمہ اپنی زبان، اسلوب اور بیان کی بے پناہ طاقت کے باعث ترجمہ نگاری کی دُنیا میں ایک معیار قائم کرتا نظر آتا ہے۔

Your one-stop Urdu Book store www.urdubook.com