Asbab e Baghawat e Hind (Delux) - اسباب بغاوت ہند (ڈیلکس)
Order your copy of Asbab e Baghawat e Hind (Delux) - اسباب بغاوت ہند (ڈیلکس) from Urdu Book to earn reward points along with fast Shipping and chance to win books in the book fair and Urdu bazar online.
Author: SIR SYED AHMAD KHAN
Translator: HAFIZ SAFWAN MUHAMMAD CHOHAN
Language: Urdu
Pages: 488
Year: 2021
ISBN: 978-969-662-325-0
Categories: HISTORY, INDIAN MUTINY, SIR SYED AHMAD KHAN
سر سید احمد خاں (1817ء -1898ء) دہلی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے خاندان کا قدیمی تعلق مغل دربار کے ساتھ تھا اور اُنھیں جواد الدولہ اور عارفِ جنگ کے شاہی خطابات عطا ہوئے۔ 1837ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازم ہوئے اور 1867ء میں چھوٹے مقدمات کے لیے جج مقرر کیے گئے۔ 1876ء میں ریٹائر ہوئے اور باقی زندگی علی گڑھ میں گزاری۔ غدر 1857ء کے دوران حکومت کے وفادار رہے اور انگریزوں کی جانیں بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بغاوت کا زور ٹوٹا تو اُنھوں نے پہلے ’’تاریخِ سرکشیِ بجنور‘‘ لکھی اور پھر ’’اسبابِ سرکشیِ ہندوستان کا جواب مضمون‘‘ لکھا جو ’’اسبابِ بغاوتِ ہند ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ اِس رسالے میں اُنھوں نے بغاوت کے پانچ اسبا ب لکھے اور رعایا کی غلط فہمی کے سوا باقی چاروں اسباب کا ذمہ دار حکومت کو قرار دیا۔ اِس رسالے نے ہندوستان میں حکومت اور عوام دونوں کو بہت فائدہ دیا اور یہ بہت بڑی سیاسی خدمت ہے جو اُنھوں نے ہندوستانی رعایا اور خصوصًا مسلمانوں کے لیے کی۔ انگریزوں نے اِس کے کئی ترجمے کرائے اور یہ برطانوی پارلیمنٹ میں خوب زیرِ بحث رہا۔ سر سید نے 1859ء میں مراد آباد میں گلشن سکول، 1863ء میں غازی پور میں وکٹوریہ سکول اور 1864ء میں سائنٹفک سوسائٹی قائم کی اور 1875ء میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج بنایا۔ یہ کالج جو ترقی کرکے مسلم یونیورسٹی بنا، مسلمانوں کی ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ میں ایک ایسا سنگِ میل ہے جو مستقبل کے لیے تعمیری سوچ اور فکر کا استعارہ ہے۔ سر سید اِس ذہن کے بنیاد گزار تھے کہ رعایا کو حکومت کے ساتھ مخلص ہونا چاہیے۔ وہ عملی انسان تھے اور اُنھوں نے شاہ ولی اللہ کی طرح مذہب کو روحانیت کے ساتھ مربوط کیا۔ مسلمانوں کی پولیٹکل، سوشل اور لٹریری ریفارمیشن کے لیے سر سید کا کام نہایت دور رس اثرات کا حامل ہے۔ 1888ء میں اُنھیں سر کا خطاب دیا گیا۔ سر سید کا ساری زندگی صحافت و اشاعتِ کتب اور لکھنے پڑھنے سے واسطہ رہا۔ اُن کی اہم کتابوں میں خطباتِ احمدیہ، تفسیر القرآن، بائبل کی تفسیر تبیین الکلام اور اسبابِ بغاوتِ ہند سمیت جلاء القلوب، تحفۂ حسن، کلمۃ الحق، راہِ سنت در ردِ بدعت، نمیقہ، طعامِ اہلِ کتاب، ترقیم فی قصہ اصحاب الکہف والرقیم، رسالہ اِبطالِ غلامی اور تحریر فی اصول التفسیر وغیرہ شامل ہیں۔
----
یہ بات فراموش کرنی نہیں چاہیے کہ جس وقت سر سید نے رسالہ اسبابِ بغاوتِ ہند لکھ کر گورنمنٹ میں پیش کیا، وہ ایک ایسا نازک وقت تھا کہ اُس وقت کسی کو آزادانہ رائے ظاہر کرنے کی جرات نہ تھی، چنانچہ کسی قدر اُن کو اپنی جرات اور دلیری کا خمیازہ بھگتنا بھی پڑا۔ بعض جلیل القدر انگریز اُن کے سخت مخالف ہوگئے جس سے کچھ دنوں وہ مارشل لاء کی زد میں رہے۔
----
اسبابِ بغاوتِ ہند میں جو کچھ سر سید نے لکھا وہ تمام اینگلو انڈینز بلکہ شاید تمام انگلش نیشن کی رائے کے برخلاف تھا اور اِسی لیے اُس کا مارشل لاء کے دور دورہ میں شائع کرنا خطرناک خیال کیا جاتا تھا، باوجود اِس کے جس دھڑلے سے کہ اُس کا بڑا حصہ منوایا گیا اور جو کام کہ اُس نے اعیانِ سلطنت کے غیظ و غضب کی آگ بجھانے میں کیا اور جو عمدہ نتائج اُس پر مترتِّب ہوئے، اُس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ وہ کس قدر مدلل اور موجّہ لکھا گیا تھا اور اُس میں کیسے صحیح اصول پر استدلال کیا گیا تھا۔
خواجہ الطاف حسین حالیؔ
Your one-stop Urdu Book store www.urdubook.com
Order your copy of Asbab e Baghawat e Hind (Delux) - اسباب بغاوت ہند (ڈیلکس) from Urdu Book to earn reward points along with fast Shipping and chance to win books in the book fair and Urdu bazar online.
Author: SIR SYED AHMAD KHAN
Translator: HAFIZ SAFWAN MUHAMMAD CHOHAN
Language: Urdu
Pages: 488
Year: 2021
ISBN: 978-969-662-325-0
Categories: HISTORY, INDIAN MUTINY, SIR SYED AHMAD KHAN
سر سید احمد خاں (1817ء -1898ء) دہلی میں پیدا ہوئے۔ آپ کے خاندان کا قدیمی تعلق مغل دربار کے ساتھ تھا اور اُنھیں جواد الدولہ اور عارفِ جنگ کے شاہی خطابات عطا ہوئے۔ 1837ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی میں ملازم ہوئے اور 1867ء میں چھوٹے مقدمات کے لیے جج مقرر کیے گئے۔ 1876ء میں ریٹائر ہوئے اور باقی زندگی علی گڑھ میں گزاری۔ غدر 1857ء کے دوران حکومت کے وفادار رہے اور انگریزوں کی جانیں بچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بغاوت کا زور ٹوٹا تو اُنھوں نے پہلے ’’تاریخِ سرکشیِ بجنور‘‘ لکھی اور پھر ’’اسبابِ سرکشیِ ہندوستان کا جواب مضمون‘‘ لکھا جو ’’اسبابِ بغاوتِ ہند ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ اِس رسالے میں اُنھوں نے بغاوت کے پانچ اسبا ب لکھے اور رعایا کی غلط فہمی کے سوا باقی چاروں اسباب کا ذمہ دار حکومت کو قرار دیا۔ اِس رسالے نے ہندوستان میں حکومت اور عوام دونوں کو بہت فائدہ دیا اور یہ بہت بڑی سیاسی خدمت ہے جو اُنھوں نے ہندوستانی رعایا اور خصوصًا مسلمانوں کے لیے کی۔ انگریزوں نے اِس کے کئی ترجمے کرائے اور یہ برطانوی پارلیمنٹ میں خوب زیرِ بحث رہا۔ سر سید نے 1859ء میں مراد آباد میں گلشن سکول، 1863ء میں غازی پور میں وکٹوریہ سکول اور 1864ء میں سائنٹفک سوسائٹی قائم کی اور 1875ء میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج بنایا۔ یہ کالج جو ترقی کرکے مسلم یونیورسٹی بنا، مسلمانوں کی ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ میں ایک ایسا سنگِ میل ہے جو مستقبل کے لیے تعمیری سوچ اور فکر کا استعارہ ہے۔ سر سید اِس ذہن کے بنیاد گزار تھے کہ رعایا کو حکومت کے ساتھ مخلص ہونا چاہیے۔ وہ عملی انسان تھے اور اُنھوں نے شاہ ولی اللہ کی طرح مذہب کو روحانیت کے ساتھ مربوط کیا۔ مسلمانوں کی پولیٹکل، سوشل اور لٹریری ریفارمیشن کے لیے سر سید کا کام نہایت دور رس اثرات کا حامل ہے۔ 1888ء میں اُنھیں سر کا خطاب دیا گیا۔ سر سید کا ساری زندگی صحافت و اشاعتِ کتب اور لکھنے پڑھنے سے واسطہ رہا۔ اُن کی اہم کتابوں میں خطباتِ احمدیہ، تفسیر القرآن، بائبل کی تفسیر تبیین الکلام اور اسبابِ بغاوتِ ہند سمیت جلاء القلوب، تحفۂ حسن، کلمۃ الحق، راہِ سنت در ردِ بدعت، نمیقہ، طعامِ اہلِ کتاب، ترقیم فی قصہ اصحاب الکہف والرقیم، رسالہ اِبطالِ غلامی اور تحریر فی اصول التفسیر وغیرہ شامل ہیں۔
----
یہ بات فراموش کرنی نہیں چاہیے کہ جس وقت سر سید نے رسالہ اسبابِ بغاوتِ ہند لکھ کر گورنمنٹ میں پیش کیا، وہ ایک ایسا نازک وقت تھا کہ اُس وقت کسی کو آزادانہ رائے ظاہر کرنے کی جرات نہ تھی، چنانچہ کسی قدر اُن کو اپنی جرات اور دلیری کا خمیازہ بھگتنا بھی پڑا۔ بعض جلیل القدر انگریز اُن کے سخت مخالف ہوگئے جس سے کچھ دنوں وہ مارشل لاء کی زد میں رہے۔
----
اسبابِ بغاوتِ ہند میں جو کچھ سر سید نے لکھا وہ تمام اینگلو انڈینز بلکہ شاید تمام انگلش نیشن کی رائے کے برخلاف تھا اور اِسی لیے اُس کا مارشل لاء کے دور دورہ میں شائع کرنا خطرناک خیال کیا جاتا تھا، باوجود اِس کے جس دھڑلے سے کہ اُس کا بڑا حصہ منوایا گیا اور جو کام کہ اُس نے اعیانِ سلطنت کے غیظ و غضب کی آگ بجھانے میں کیا اور جو عمدہ نتائج اُس پر مترتِّب ہوئے، اُس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ وہ کس قدر مدلل اور موجّہ لکھا گیا تھا اور اُس میں کیسے صحیح اصول پر استدلال کیا گیا تھا۔
خواجہ الطاف حسین حالیؔ
Your one-stop Urdu Book store www.urdubook.com