Layamoot: Aik Khud Navisht - لایموت : ایک خودنوشت Book Corner

Layamoot: Aik Khud Navisht - لایموت : ایک خودنوشت

Rs.995 99500
  • Successful pre-order.Thanks for contacting us!
  • Order within
Book Title
Layamoot: Aik Khud Navisht - لایموت : ایک خودنوشت
Author
Book Corner
Order your copy of Layamoot: Aik Khud Navisht - لایموت : ایک خودنوشت from Urdu Book to earn reward points along with fast Shipping and chance to win books in the book fair and Urdu bazar online. Author: RASHID SHAZTranslator: N/ALanguage: UrduPages: 427Year: 2021ISBN: 978-969-662-387-8Categories: ISLAM, AUTOBIOGRAPHY, MEMOIRS لایموت محض ایک خودنوشت نہیں گو کہ اسے اس پیرائے میں لکھنے کی کوشش ضرور کی گئی ہے۔ اس کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے آپ کو بہت سی مانوس آوازیں سنائی دیں گی اور بسا اوقات تو ایسا لگے گا کہ آپ کا ان کرداروں سے جنم جنم کا رشتہ ہو۔ دبی کچلی آوازیں، کٹے پھٹے لوگ، مسخ شدہ زندہ لاشے جن سے زندگی کی رمق چھین لی گئی ہوں۔ ان ستم نصیبوں کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کے ساتھ دراصل ہوا کیا ہے۔اہلِ یہود اپنے اوپر گزرنے والے سانحے کو ہالوکاسٹ سے موسوم کرتے ہیں اور فلسطینیوں نے اپنے قومی سانحے کو، جس نے ان کی معمول کی زندگی کو گزشتہ پچھتّر برسوں سے تہ و بالا کر رکھا ہے، ’’نکبہ‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔ غم کے مارے ہندوستانی مسلمانوں کو یہ سہولت بھی حاصل نہیں کہ اس حادثۂ عظمیٰ کو جو اِن کے ساتھ پیش آیا ہے کوئی ڈھنگ کا نام ہی دے سکیں۔کہنے کو تو یہ ایک شخص کی داستانِ حیات ہے مگر ان اوراق میںہندوستانی مسلمانوں کے حقیقی شب و روز کچھ اس طرح رقم ہوتے چلے گئے ہیں کہ قاری ہر صفحے پر رُک کر سوچتا ہے کہ اسے واقعات کی یہ ترتیب اور اس کے اندر پوشیدہ معانی کاعلم اب تک کیوں کر نہ ہو سکا۔بہتوں کے لیے یہ کتاب چشم کشا ثابت ہو گی۔ البتہ اس بیانیے کا ایک فطری نقص یہ ہے کہ یہ قصّہ ٔجانکاہ بھی اپنی تمام تر محشر بیانیوں کے باوجود ہندوستانی مسلمانوں کے اس حادثۂ عظمیٰ کو کوئی نام دینے میں ناکام نظر آتاہے۔ کیا عجب کہ یہی اس کی خوبی بھی ہو کہ جب تک غیرمعمولی واقعات و حوادث کے بیان کے لیے ایک نئی اور مناسب لغت وجود میں نہ آئے، لکھنے والا اسے گرفت میں لائے تو کیسے؟(راشد شاز)----راشد شاز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مرکز فروغِ تعلیم و ثقافت مسلمانانِ ہند میں پروفیسر اور نئی دہلی میں واقع ایک غیرمنفعتی ادارہ پیس انڈیا انٹرنیشنل کے سربراہ ہیں۔ مختلف اقوام و ملل کے مابین افہام و تفہیم کی کوششوں کو فروغ دینے کے لیے عالمی ادارہ ایسیسکو نے انہیں اپنا سفیر بھی متعین کر رکھا ہے۔ فاضل مصنف فکرِ اسلامی پر اپنی فکر انگیز تحریروں کے حوالے سے دُنیا بھر میںجانے جاتے ہیں۔ ایک عرصے سے مختلف زبانوں میںان کی کتابوں کے ترجمے عالمِ عرب اورعالمِ غرب کے مختلف شہروں سے شائع ہوتے رہے ہیں۔ اپنی پہلی باضابطہ تصنیف ’غلبہ ٔ اسلام: ہندوستان میں احیائے اسلام کا منشور‘(۱۹۸۷ء) کی اشاعت سے لے کر اب تک وہ حالات میں خوشگوار تبدیلی کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ مارچ ۱۹۹۱ء میں انہوں نے نئی دہلی میں ہندوستانی مسلمانوں کا پہلا ملک گیر کنونشن منعقد کیا۔ ۱۹۹۳ء میں ملی پارلیمنٹ کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا جس کے ملک گیر اجلاس سے سال ۲۰۰۰ء تک ملک کی فضا گونجتی رہی۔ ۱۹۹۴ء میں ہفت روزہ ملی ٹائمز کے اجرا اور سال ۲۰۰۱ء میں اس کی اشاعت موقوف ہونے تک آپ اس کی سرپرستی کرتے رہے۔ ۲۰۰۴ء میں فکرِاسلامی کی ترویج و اشاعت کے خیال سے اُردو، انگریزی اور عربی میں بیک وقت ایک نئے الکترونی مجلے ’’فیوچر اسلام‘‘ کی اشاعت عمل میں لائے جس کے زیرِاہتمام ۲۰۰۵ء میں لندن میں ایک کانفرنس بھی منعقد کی گئی۔ ۲۰۱۳ء میں برج کورس (برائے فارغین دینی مدارس) کے تعلیمی تجربے کے لیے مسلم یونیورسٹی نے انھیں پروفیسر شپ کی پیش کش کی جسے آپ نے قبول کر لیا۔ ایک نئی پُرامن دُنیا کے قیام کے لیے آ پ مختلف بین الاقوامی فورمز پر بھی متحرک رہے ہیں اور اس سلسلے میں آپ نے دُنیا کے بیشتر ممالک کا سفر کیا ہے۔ Your one-stop Urdu Book store www.urdubook.com 

Order your copy of Layamoot: Aik Khud Navisht - لایموت : ایک خودنوشت from Urdu Book to earn reward points along with fast Shipping and chance to win books in the book fair and Urdu bazar online.

Author: RASHID SHAZ
Translator: N/A
Language: Urdu
Pages: 427
Year: 2021
ISBN: 978-969-662-387-8
Categories: ISLAM, AUTOBIOGRAPHY, MEMOIRS

لایموت محض ایک خودنوشت نہیں گو کہ اسے اس پیرائے میں لکھنے کی کوشش ضرور کی گئی ہے۔ اس کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے آپ کو بہت سی مانوس آوازیں سنائی دیں گی اور بسا اوقات تو ایسا لگے گا کہ آپ کا ان کرداروں سے جنم جنم کا رشتہ ہو۔ دبی کچلی آوازیں، کٹے پھٹے لوگ، مسخ شدہ زندہ لاشے جن سے زندگی کی رمق چھین لی گئی ہوں۔ ان ستم نصیبوں کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کے ساتھ دراصل ہوا کیا ہے۔اہلِ یہود اپنے اوپر گزرنے والے سانحے کو ہالوکاسٹ سے موسوم کرتے ہیں اور فلسطینیوں نے اپنے قومی سانحے کو، جس نے ان کی معمول کی زندگی کو گزشتہ پچھتّر برسوں سے تہ و بالا کر رکھا ہے، ’’نکبہ‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔ غم کے مارے ہندوستانی مسلمانوں کو یہ سہولت بھی حاصل نہیں کہ اس حادثۂ عظمیٰ کو جو اِن کے ساتھ پیش آیا ہے کوئی ڈھنگ کا نام ہی دے سکیں۔
کہنے کو تو یہ ایک شخص کی داستانِ حیات ہے مگر ان اوراق میںہندوستانی مسلمانوں کے حقیقی شب و روز کچھ اس طرح رقم ہوتے چلے گئے ہیں کہ قاری ہر صفحے پر رُک کر سوچتا ہے کہ اسے واقعات کی یہ ترتیب اور اس کے اندر پوشیدہ معانی کاعلم اب تک کیوں کر نہ ہو سکا۔
بہتوں کے لیے یہ کتاب چشم کشا ثابت ہو گی۔ البتہ اس بیانیے کا ایک فطری نقص یہ ہے کہ یہ قصّہ ٔجانکاہ بھی اپنی تمام تر محشر بیانیوں کے باوجود ہندوستانی مسلمانوں کے اس حادثۂ عظمیٰ کو کوئی نام دینے میں ناکام نظر آتاہے۔ کیا عجب کہ یہی اس کی خوبی بھی ہو کہ جب تک غیرمعمولی واقعات و حوادث کے بیان کے لیے ایک نئی اور مناسب لغت وجود میں نہ آئے، لکھنے والا اسے گرفت میں لائے تو کیسے؟

(راشد شاز)

----

راشد شاز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مرکز فروغِ تعلیم و ثقافت مسلمانانِ ہند میں پروفیسر اور نئی دہلی میں واقع ایک غیرمنفعتی ادارہ پیس انڈیا انٹرنیشنل کے سربراہ ہیں۔ مختلف اقوام و ملل کے مابین افہام و تفہیم کی کوششوں کو فروغ دینے کے لیے عالمی ادارہ ایسیسکو نے انہیں اپنا سفیر بھی متعین کر رکھا ہے۔ فاضل مصنف فکرِ اسلامی پر اپنی فکر انگیز تحریروں کے حوالے سے دُنیا بھر میںجانے جاتے ہیں۔ ایک عرصے سے مختلف زبانوں میںان کی کتابوں کے ترجمے عالمِ عرب اورعالمِ غرب کے مختلف شہروں سے شائع ہوتے رہے ہیں۔ اپنی پہلی باضابطہ تصنیف ’غلبہ ٔ اسلام: ہندوستان میں احیائے اسلام کا منشور‘(۱۹۸۷ء) کی اشاعت سے لے کر اب تک وہ حالات میں خوشگوار تبدیلی کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ مارچ ۱۹۹۱ء میں انہوں نے نئی دہلی میں ہندوستانی مسلمانوں کا پہلا ملک گیر کنونشن منعقد کیا۔ ۱۹۹۳ء میں ملی پارلیمنٹ کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا جس کے ملک گیر اجلاس سے سال ۲۰۰۰ء تک ملک کی فضا گونجتی رہی۔ ۱۹۹۴ء میں ہفت روزہ ملی ٹائمز کے اجرا اور سال ۲۰۰۱ء میں اس کی اشاعت موقوف ہونے تک آپ اس کی سرپرستی کرتے رہے۔ ۲۰۰۴ء میں فکرِاسلامی کی ترویج و اشاعت کے خیال سے اُردو، انگریزی اور عربی میں بیک وقت ایک نئے الکترونی مجلے ’’فیوچر اسلام‘‘ کی اشاعت عمل میں لائے جس کے زیرِاہتمام ۲۰۰۵ء میں لندن میں ایک کانفرنس بھی منعقد کی گئی۔ ۲۰۱۳ء میں برج کورس (برائے فارغین دینی مدارس) کے تعلیمی تجربے کے لیے مسلم یونیورسٹی نے انھیں پروفیسر شپ کی پیش کش کی جسے آپ نے قبول کر لیا۔ ایک نئی پُرامن دُنیا کے قیام کے لیے آ پ مختلف بین الاقوامی فورمز پر بھی متحرک رہے ہیں اور اس سلسلے میں آپ نے دُنیا کے بیشتر ممالک کا سفر کیا ہے۔

Your one-stop Urdu Book store www.urdubook.com 

Order your copy of Layamoot: Aik Khud Navisht - لایموت : ایک خودنوشت from Urdu Book to earn reward points along with fast Shipping and chance to win books in the book fair and Urdu bazar online.

Author: RASHID SHAZ
Translator: N/A
Language: Urdu
Pages: 427
Year: 2021
ISBN: 978-969-662-387-8
Categories: ISLAM, AUTOBIOGRAPHY, MEMOIRS

لایموت محض ایک خودنوشت نہیں گو کہ اسے اس پیرائے میں لکھنے کی کوشش ضرور کی گئی ہے۔ اس کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے آپ کو بہت سی مانوس آوازیں سنائی دیں گی اور بسا اوقات تو ایسا لگے گا کہ آپ کا ان کرداروں سے جنم جنم کا رشتہ ہو۔ دبی کچلی آوازیں، کٹے پھٹے لوگ، مسخ شدہ زندہ لاشے جن سے زندگی کی رمق چھین لی گئی ہوں۔ ان ستم نصیبوں کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کے ساتھ دراصل ہوا کیا ہے۔اہلِ یہود اپنے اوپر گزرنے والے سانحے کو ہالوکاسٹ سے موسوم کرتے ہیں اور فلسطینیوں نے اپنے قومی سانحے کو، جس نے ان کی معمول کی زندگی کو گزشتہ پچھتّر برسوں سے تہ و بالا کر رکھا ہے، ’’نکبہ‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔ غم کے مارے ہندوستانی مسلمانوں کو یہ سہولت بھی حاصل نہیں کہ اس حادثۂ عظمیٰ کو جو اِن کے ساتھ پیش آیا ہے کوئی ڈھنگ کا نام ہی دے سکیں۔
کہنے کو تو یہ ایک شخص کی داستانِ حیات ہے مگر ان اوراق میںہندوستانی مسلمانوں کے حقیقی شب و روز کچھ اس طرح رقم ہوتے چلے گئے ہیں کہ قاری ہر صفحے پر رُک کر سوچتا ہے کہ اسے واقعات کی یہ ترتیب اور اس کے اندر پوشیدہ معانی کاعلم اب تک کیوں کر نہ ہو سکا۔
بہتوں کے لیے یہ کتاب چشم کشا ثابت ہو گی۔ البتہ اس بیانیے کا ایک فطری نقص یہ ہے کہ یہ قصّہ ٔجانکاہ بھی اپنی تمام تر محشر بیانیوں کے باوجود ہندوستانی مسلمانوں کے اس حادثۂ عظمیٰ کو کوئی نام دینے میں ناکام نظر آتاہے۔ کیا عجب کہ یہی اس کی خوبی بھی ہو کہ جب تک غیرمعمولی واقعات و حوادث کے بیان کے لیے ایک نئی اور مناسب لغت وجود میں نہ آئے، لکھنے والا اسے گرفت میں لائے تو کیسے؟

(راشد شاز)

----

راشد شاز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مرکز فروغِ تعلیم و ثقافت مسلمانانِ ہند میں پروفیسر اور نئی دہلی میں واقع ایک غیرمنفعتی ادارہ پیس انڈیا انٹرنیشنل کے سربراہ ہیں۔ مختلف اقوام و ملل کے مابین افہام و تفہیم کی کوششوں کو فروغ دینے کے لیے عالمی ادارہ ایسیسکو نے انہیں اپنا سفیر بھی متعین کر رکھا ہے۔ فاضل مصنف فکرِ اسلامی پر اپنی فکر انگیز تحریروں کے حوالے سے دُنیا بھر میںجانے جاتے ہیں۔ ایک عرصے سے مختلف زبانوں میںان کی کتابوں کے ترجمے عالمِ عرب اورعالمِ غرب کے مختلف شہروں سے شائع ہوتے رہے ہیں۔ اپنی پہلی باضابطہ تصنیف ’غلبہ ٔ اسلام: ہندوستان میں احیائے اسلام کا منشور‘(۱۹۸۷ء) کی اشاعت سے لے کر اب تک وہ حالات میں خوشگوار تبدیلی کے لیے مسلسل جدوجہد کرتے رہے ہیں۔ مارچ ۱۹۹۱ء میں انہوں نے نئی دہلی میں ہندوستانی مسلمانوں کا پہلا ملک گیر کنونشن منعقد کیا۔ ۱۹۹۳ء میں ملی پارلیمنٹ کا باقاعدہ قیام عمل میں آیا جس کے ملک گیر اجلاس سے سال ۲۰۰۰ء تک ملک کی فضا گونجتی رہی۔ ۱۹۹۴ء میں ہفت روزہ ملی ٹائمز کے اجرا اور سال ۲۰۰۱ء میں اس کی اشاعت موقوف ہونے تک آپ اس کی سرپرستی کرتے رہے۔ ۲۰۰۴ء میں فکرِاسلامی کی ترویج و اشاعت کے خیال سے اُردو، انگریزی اور عربی میں بیک وقت ایک نئے الکترونی مجلے ’’فیوچر اسلام‘‘ کی اشاعت عمل میں لائے جس کے زیرِاہتمام ۲۰۰۵ء میں لندن میں ایک کانفرنس بھی منعقد کی گئی۔ ۲۰۱۳ء میں برج کورس (برائے فارغین دینی مدارس) کے تعلیمی تجربے کے لیے مسلم یونیورسٹی نے انھیں پروفیسر شپ کی پیش کش کی جسے آپ نے قبول کر لیا۔ ایک نئی پُرامن دُنیا کے قیام کے لیے آ پ مختلف بین الاقوامی فورمز پر بھی متحرک رہے ہیں اور اس سلسلے میں آپ نے دُنیا کے بیشتر ممالک کا سفر کیا ہے۔

Your one-stop Urdu Book store www.urdubook.com