Chalo Insha Ji k Pas Chalain - چلو انشا جی کے پاس چلیں Book Corner

Chalo Insha Ji k Pas Chalain - چلو انشا جی کے پاس چلیں

Rs.700 70000
  • Successful pre-order.Thanks for contacting us!
  • Order within
Book Title
Chalo Insha Ji k Pas Chalain - چلو انشا جی کے پاس چلیں
Author
Book Corner
Order your copy of Chalo Insha Ji k Pas Chalain - چلو انشا جی کے پاس چلیں from Urdu Book to get a huge discount along with Shipping and chance to win books in the book fair and Urdu bazar online. Author: DR. RIAZ AHMED RIAZPages: 359Year: 2021ISBN: 9789696623687Categories: BIOGRAPHY URDU LITERATURE MEMOIRSLanguage: Urdu اس عظیم الشان کارنامے کا تمام کریڈٹ مصنف ڈاکٹر ریاض احمد ریاض کو جاتا ہے۔ اگر وہ اپنی پی ایچ ڈی کے لیے یہ موضوع انتخاب کر کے اس پر اتنی محنت نہ کرتے تو نہ جانے ’’لبِ ساقی پر صلا‘‘ اور کتنے دن رہتی۔ ہمارے کیسے کیسے بڑے مشاہیر کتنے بڑے بڑے کام کر کے تمام ہوئے مگر اب ان پر کام کرنے والے نظر نہیں آتے۔ سچ ہے کہ پی ایچ ڈی کے بعد اساتذہ کے امکاناتِ مستقبل کسی حد تک روشن ہو جاتے ہیں لیکن موضوع کا سہرا تو سراسر ان کے سر ہی بندھے گا۔ کئی بیانات ابن انشا کے بعض دوستوں سے گفتگو یعنی ان کے علمِ سینہ پر مبنی ہیں۔ راقم الحروف بھی اس کے ایک خاصے پُرانے، مدّت پچیس سال، دوست اور عملی ساتھی کی حیثیت سے کچھ علمِ سینہ رکھتا ہے۔ علمِ سینہ انہیں زیادہ تر ابن انشا کے ان دوستوں سے حاصل ہوا جو اس کے لڑکپن یا قیام لاہور کے ساتھی اور مکتوب الیہ تھے۔ یہ ایک اہم ادیب کی سوانح عمری ہے جس نے ایک خاصی پیچیدہ اور آزمائشوں سے بھرپور عملی زندگی بھی گزاری۔ یقیناً ابن انشا اپنے مقام اور متنوع زندگی کی وجہ سے ایک ہی نہیں، کئی سیر حاصل کتابوں کا مستحق ہے۔ اس کتاب کی اشاعت سے ایک ادبی مقصد بھی پورا ہوتا ہے۔ ریاض احمد ریاض صاحب نے ابن انشا پر کام کیا اور یہ مقالہ اشاعت کے لیے سونپ دیا۔ وہ مرحوم سے ذاتی طور پر کوئی معاملاتی تعلق نہ رکھتے تھے۔ کسی طرح اس کے زیر بار نہ تھے .... اور آج کل کوئی زیر بار بھی کب اپنا بار کم کرتا ہے.... بلکہ ہمارے ہاں تو ایسی مثالیں عام ہیں کہ کسی ادیب کے زیربار ہونے والے کچھ ادیب، مشاہیر تک، غالباً اپنی نفسیاتی اُلجھنوں کے سبب اپنے محسن کے لیے بدخواہی کی آخری حدود سے بھی آگے نکل جاتے ہیں۔ ڈاکٹر ریاض احمد ریاض ادب دوستوں کی طرف سے بھی مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ تاریخ انہیں ان کا انعام ضرور پیش کرے گی۔جمیل الدین عالیکچھ مصنف کے بارے میں:ڈاکٹر ریاض احمد ریاض کی پیدائش 10اگست1939ء کو مشرقی پنجاب کی ریاست کپورتھلہ کے گائوں مقصودپور کے ایک زمیندار گھرانے میں ہوئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد حالات معمول پر آئے تو ٹوبہ ٹیک سنگھ کو اپنا نیا وطن بنایا اور 1956ء میں یہاں کے اکلوتے ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ گورنمنٹ کالج لائل پور ان کی دوسری درسگاہ تھی۔ یہاں سے بی اے (آنرز) اور پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور سے 1963ء میں ایم اے کی سند حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج رحیم یار خان میں لیکچرر شپ سے ملازمت کا آغاز کیا۔ بعد ازاں چار سال کا عرصہ گورنمنٹ کالج کوئٹہ میں بسر ہوا۔ 1970ء میں اپنے تعلیمی ادارے گورنمنٹ کالج لائل پور(اب جی سی یونیورسٹی فیصل آباد ) کے سٹاف میں واپس شامل ہوئے اور پچیس برس سے زائد مدّت تک یہاں تدریسی فرائض سرانجام دیئے۔ اس دوران ابن انشا سے خصوصی ادبی لگائو بلکہ محبت کے اظہار کے طور پر ان کی شخصیت اور ادبی خدمات پر کام کیا اور 1982ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ دُنیا کے مختلف ملکوں کی سیر و سیاحت کے حوالے سے ان کا پہلا رپورتاژ ’’بر سبیل سفر‘‘ 1982ء میں لاہور سے طبع ہوا۔ مشاہیر ادب کے نام ابن انشا کے منفرد اور دلچسپ خطوط کا پہلا مجموعہ ’’خط انشا جی کے‘‘ 1985ء میں منظر عام پر آیا۔1995ء میں فیصل آباد سے اسلام آباد شفٹ ہو گئے اور آج کل یہیں مقیم ہیں۔ Your one-stop Urdu Book store www.urdubook.com

Order your copy of Chalo Insha Ji k Pas Chalain - چلو انشا جی کے پاس چلیں from Urdu Book to get a huge discount along with Shipping and chance to win books in the book fair and Urdu bazar online.

Author: DR. RIAZ AHMED RIAZ
Pages: 359
Year: 2021
ISBN: 9789696623687
Categories: BIOGRAPHY URDU LITERATURE MEMOIRS
Language: Urdu

اس عظیم الشان کارنامے کا تمام کریڈٹ مصنف ڈاکٹر ریاض احمد ریاض کو جاتا ہے۔ اگر وہ اپنی پی ایچ ڈی کے لیے یہ موضوع انتخاب کر کے اس پر اتنی محنت نہ کرتے تو نہ جانے ’’لبِ ساقی پر صلا‘‘ اور کتنے دن رہتی۔ ہمارے کیسے کیسے بڑے مشاہیر کتنے بڑے بڑے کام کر کے تمام ہوئے مگر اب ان پر کام کرنے والے نظر نہیں آتے۔ سچ ہے کہ پی ایچ ڈی کے بعد اساتذہ کے امکاناتِ مستقبل کسی حد تک روشن ہو جاتے ہیں لیکن موضوع کا سہرا تو سراسر ان کے سر ہی بندھے گا۔ کئی بیانات ابن انشا کے بعض دوستوں سے گفتگو یعنی ان کے علمِ سینہ پر مبنی ہیں۔ راقم الحروف بھی اس کے ایک خاصے پُرانے، مدّت پچیس سال، دوست اور عملی ساتھی کی حیثیت سے کچھ علمِ سینہ رکھتا ہے۔ علمِ سینہ انہیں زیادہ تر ابن انشا کے ان دوستوں سے حاصل ہوا جو اس کے لڑکپن یا قیام لاہور کے ساتھی اور مکتوب الیہ تھے۔ یہ ایک اہم ادیب کی سوانح عمری ہے جس نے ایک خاصی پیچیدہ اور آزمائشوں سے بھرپور عملی زندگی بھی گزاری۔ یقیناً ابن انشا اپنے مقام اور متنوع زندگی کی وجہ سے ایک ہی نہیں، کئی سیر حاصل کتابوں کا مستحق ہے۔ اس کتاب کی اشاعت سے ایک ادبی مقصد بھی پورا ہوتا ہے۔ ریاض احمد ریاض صاحب نے ابن انشا پر کام کیا اور یہ مقالہ اشاعت کے لیے سونپ دیا۔ وہ مرحوم سے ذاتی طور پر کوئی معاملاتی تعلق نہ رکھتے تھے۔ کسی طرح اس کے زیر بار نہ تھے .... اور آج کل کوئی زیر بار بھی کب اپنا بار کم کرتا ہے.... بلکہ ہمارے ہاں تو ایسی مثالیں عام ہیں کہ کسی ادیب کے زیربار ہونے والے کچھ ادیب، مشاہیر تک، غالباً اپنی نفسیاتی اُلجھنوں کے سبب اپنے محسن کے لیے بدخواہی کی آخری حدود سے بھی آگے نکل جاتے ہیں۔ ڈاکٹر ریاض احمد ریاض ادب دوستوں کی طرف سے بھی مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ تاریخ انہیں ان کا انعام ضرور پیش کرے گی۔

جمیل الدین عالی

کچھ مصنف کے بارے میں:

ڈاکٹر ریاض احمد ریاض کی پیدائش 10اگست1939ء کو مشرقی پنجاب کی ریاست کپورتھلہ کے گائوں مقصودپور کے ایک زمیندار گھرانے میں ہوئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد حالات معمول پر آئے تو ٹوبہ ٹیک سنگھ کو اپنا نیا وطن بنایا اور 1956ء میں یہاں کے اکلوتے ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ گورنمنٹ کالج لائل پور ان کی دوسری درسگاہ تھی۔ یہاں سے بی اے (آنرز) اور پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور سے 1963ء میں ایم اے کی سند حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج رحیم یار خان میں لیکچرر شپ سے ملازمت کا آغاز کیا۔ بعد ازاں چار سال کا عرصہ گورنمنٹ کالج کوئٹہ میں بسر ہوا۔ 1970ء میں اپنے تعلیمی ادارے گورنمنٹ کالج لائل پور(اب جی سی یونیورسٹی فیصل آباد ) کے سٹاف میں واپس شامل ہوئے اور پچیس برس سے زائد مدّت تک یہاں تدریسی فرائض سرانجام دیئے۔ اس دوران ابن انشا سے خصوصی ادبی لگائو بلکہ محبت کے اظہار کے طور پر ان کی شخصیت اور ادبی خدمات پر کام کیا اور 1982ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ دُنیا کے مختلف ملکوں کی سیر و سیاحت کے حوالے سے ان کا پہلا رپورتاژ ’’بر سبیل سفر‘‘ 1982ء میں لاہور سے طبع ہوا۔ مشاہیر ادب کے نام ابن انشا کے منفرد اور دلچسپ خطوط کا پہلا مجموعہ ’’خط انشا جی کے‘‘ 1985ء میں منظر عام پر آیا۔1995ء میں فیصل آباد سے اسلام آباد شفٹ ہو گئے اور آج کل یہیں مقیم ہیں۔

Your one-stop Urdu Book store www.urdubook.com

Order your copy of Chalo Insha Ji k Pas Chalain - چلو انشا جی کے پاس چلیں from Urdu Book to get a huge discount along with Shipping and chance to win books in the book fair and Urdu bazar online.

Author: DR. RIAZ AHMED RIAZ
Pages: 359
Year: 2021
ISBN: 9789696623687
Categories: BIOGRAPHY URDU LITERATURE MEMOIRS
Language: Urdu

اس عظیم الشان کارنامے کا تمام کریڈٹ مصنف ڈاکٹر ریاض احمد ریاض کو جاتا ہے۔ اگر وہ اپنی پی ایچ ڈی کے لیے یہ موضوع انتخاب کر کے اس پر اتنی محنت نہ کرتے تو نہ جانے ’’لبِ ساقی پر صلا‘‘ اور کتنے دن رہتی۔ ہمارے کیسے کیسے بڑے مشاہیر کتنے بڑے بڑے کام کر کے تمام ہوئے مگر اب ان پر کام کرنے والے نظر نہیں آتے۔ سچ ہے کہ پی ایچ ڈی کے بعد اساتذہ کے امکاناتِ مستقبل کسی حد تک روشن ہو جاتے ہیں لیکن موضوع کا سہرا تو سراسر ان کے سر ہی بندھے گا۔ کئی بیانات ابن انشا کے بعض دوستوں سے گفتگو یعنی ان کے علمِ سینہ پر مبنی ہیں۔ راقم الحروف بھی اس کے ایک خاصے پُرانے، مدّت پچیس سال، دوست اور عملی ساتھی کی حیثیت سے کچھ علمِ سینہ رکھتا ہے۔ علمِ سینہ انہیں زیادہ تر ابن انشا کے ان دوستوں سے حاصل ہوا جو اس کے لڑکپن یا قیام لاہور کے ساتھی اور مکتوب الیہ تھے۔ یہ ایک اہم ادیب کی سوانح عمری ہے جس نے ایک خاصی پیچیدہ اور آزمائشوں سے بھرپور عملی زندگی بھی گزاری۔ یقیناً ابن انشا اپنے مقام اور متنوع زندگی کی وجہ سے ایک ہی نہیں، کئی سیر حاصل کتابوں کا مستحق ہے۔ اس کتاب کی اشاعت سے ایک ادبی مقصد بھی پورا ہوتا ہے۔ ریاض احمد ریاض صاحب نے ابن انشا پر کام کیا اور یہ مقالہ اشاعت کے لیے سونپ دیا۔ وہ مرحوم سے ذاتی طور پر کوئی معاملاتی تعلق نہ رکھتے تھے۔ کسی طرح اس کے زیر بار نہ تھے .... اور آج کل کوئی زیر بار بھی کب اپنا بار کم کرتا ہے.... بلکہ ہمارے ہاں تو ایسی مثالیں عام ہیں کہ کسی ادیب کے زیربار ہونے والے کچھ ادیب، مشاہیر تک، غالباً اپنی نفسیاتی اُلجھنوں کے سبب اپنے محسن کے لیے بدخواہی کی آخری حدود سے بھی آگے نکل جاتے ہیں۔ ڈاکٹر ریاض احمد ریاض ادب دوستوں کی طرف سے بھی مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ تاریخ انہیں ان کا انعام ضرور پیش کرے گی۔

جمیل الدین عالی

کچھ مصنف کے بارے میں:

ڈاکٹر ریاض احمد ریاض کی پیدائش 10اگست1939ء کو مشرقی پنجاب کی ریاست کپورتھلہ کے گائوں مقصودپور کے ایک زمیندار گھرانے میں ہوئی۔ قیامِ پاکستان کے بعد حالات معمول پر آئے تو ٹوبہ ٹیک سنگھ کو اپنا نیا وطن بنایا اور 1956ء میں یہاں کے اکلوتے ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ گورنمنٹ کالج لائل پور ان کی دوسری درسگاہ تھی۔ یہاں سے بی اے (آنرز) اور پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج لاہور سے 1963ء میں ایم اے کی سند حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج رحیم یار خان میں لیکچرر شپ سے ملازمت کا آغاز کیا۔ بعد ازاں چار سال کا عرصہ گورنمنٹ کالج کوئٹہ میں بسر ہوا۔ 1970ء میں اپنے تعلیمی ادارے گورنمنٹ کالج لائل پور(اب جی سی یونیورسٹی فیصل آباد ) کے سٹاف میں واپس شامل ہوئے اور پچیس برس سے زائد مدّت تک یہاں تدریسی فرائض سرانجام دیئے۔ اس دوران ابن انشا سے خصوصی ادبی لگائو بلکہ محبت کے اظہار کے طور پر ان کی شخصیت اور ادبی خدمات پر کام کیا اور 1982ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ دُنیا کے مختلف ملکوں کی سیر و سیاحت کے حوالے سے ان کا پہلا رپورتاژ ’’بر سبیل سفر‘‘ 1982ء میں لاہور سے طبع ہوا۔ مشاہیر ادب کے نام ابن انشا کے منفرد اور دلچسپ خطوط کا پہلا مجموعہ ’’خط انشا جی کے‘‘ 1985ء میں منظر عام پر آیا۔1995ء میں فیصل آباد سے اسلام آباد شفٹ ہو گئے اور آج کل یہیں مقیم ہیں۔

Your one-stop Urdu Book store www.urdubook.com