Ertugrul Ghazi - ارطغرل غازی Book Corner

Ertugrul Ghazi - ارطغرل غازی

Rs.1,200 120000
Successful pre-order.Thanks for contacting us!
Book Title
Ertugrul Ghazi - ارطغرل غازی
Author
Book Corner
Order your copy of Ertugrul Ghazi - ارطغرل غازی from Urdu Book to earn reward points along with fast Shipping and chance to win books in the book fair and Urdu bazar online. Author: RAHMATULLAH TURKMENTranslator: N/ALanguage: UrduPages: 368Year: 2021ISBN: 978-969-662-269-7Categories: Islam, History, Biography ترک قوم تاریخِ عالم میں خاص اہمیت کی حامل ہے۔ ترک قبائل، جن کا نسب حضرت نوحu کے بیٹے یافث سے جا ملتا ہے، قدیم اقوام کی فہرست میں شامل ہیں۔ اسلام سے قبل کے ادوار میں ترکوں نے آسیائے میانہ (وسط ایشیا) سے نکل کر دُنیا کے اکثر حصوں میں عظیم ریاستیں تشکیل دیں۔ جب ترکوں میں لطفِ خداوندی سے ایمان کا نُور داخل ہوا تو ان میں جسمانی قوت کے ساتھ ساتھ روحانی و ایمانی طاقت کا بھی اضافہ ہوا، جس کے بعد بہت کم عرصے میں انھوں نے خود کو شہرت و عظمت کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور سینکڑوں علما، شعرا، سلاطین و فاتحین کو جنم دیا۔ترکوں کی ان عظیم شخصیات میں ایک نام ارطغرل غازی کا سامنے آتا ہے جس نے چار سوخیموں کے ساتھ اناطولیہ کی طرف سفر کر کے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور بہت کم عرصے میں ہزاروں کی تعداد میں غازیانِ اسلام کا لشکر جمع کر کے تاتاریوں اور بازنطینیوں کے خلاف قابلِ قدر خدمات انجام دیں۔ اگرچہ ارطغرل غازی کا نام عثمانی سلاطین و خلفا میں نہیں آتا، لیکن ارطغرل کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کی اولاد سے 37 سلاطین پیدا ہوئے اور 1299ء سے لے کر 1922ء تک تین براعظموں اور سات سمندورں پر حاکم رہے۔پڑھنے والوں کے لیے یہ امر بھی دلچسپی کا باعث ہوگا کہ ارطغرل غازی کی اولاد کا برصغیر سے بھی عرصۂ دراز تک تعلق رہا ہے۔ ارطغرل کی ساتویں نسل سے عثمانی سلطان محمد فاتح کے بھائی شہزادہ یوسف نے جنوبی ہندوستان کے علاقے بیجاپور [Bijapur] میں عادل شاہی ریاست [Adil Shahi Dynasty] کی بنیاد ڈالی، جو دو سو سال تک قائم رہی۔ ظہیر الدین بابر نے جب ہندوستان پر یورش کی تو عثمانی خلیفہ و سلطان سلیم اوّل [Selim I] نے کئی مشہور سپہ سالاروں کو توپ اور لشکر کے ساتھ مدد کے لیے روانہ کیا۔ بعدازاں برصغیر کے مسلمانوں نے انگریز دَور میں تحریکِ خلافت کی صورت میں عثمانی خلافت کے دفاع میں ایک عظیم تحریک چلائی۔گزشتہ چند برسوں کے دوران ترکی سیریل دیریلیش ارطغرل [Diriliş: Ertuğrul] کے سبب جہاں دُنیا بھر میں ایک فکری انقلاب دیکھنے میں آیا، وہیں پاکستان میں بھی تاریخ کے اس گمنام ہیرو کا نام دوبارہ زندہ ہوا اور ہر خاص و عام میں اس کی حیات اور کارناموں کے متعلق پڑھنے اور جاننے کا شوق پیدا ہونے لگا۔ لیکن اس ڈرامے کے سامنے آنے سے کئی غلط معلومات بھی دیکھنے والوں میں مشہور ہوگئیں اور ایک بڑی تعداد نے ڈرامے کو مکمل طور پر ہی حقیقت تصور کر لیا ہے۔ حالانکہ ارطغرل غازی کی حقیقی زندگی اور کتبِ تواریخ میں مذکور حالات بہت الگ ہیں۔ اس کے متعلق ایک باب میں تفصیلی طور پر وضاحت کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ایک طبقہ ارطغرل کے خلاف کینہ و بغض میں اس قدر آگے بڑھ گیا ہے کہ اس کی شخصیت و تاریخ پر اعتراض کر کے اور اس کی مسلمانی کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کر کے سوال اٹھانے لگا ہے۔ ان اعتراضات کا جواب بھی کتاب میں لکھ دیا گیا ہے۔سلطنتِ عثمانیہ کے متعلق اُردو زبان میں بہت کم لکھا گیا ہے۔ ارطغرل غازی پر تو کوئی بھی اُردو داں مؤرخ پانچ دس صفحات سے زیادہ نہ لکھ سکا۔ لہٰذا اب اس شخصیت پر علمی و تحقیقی کتاب کی اشد ضروت محسوس ہونے لگی۔ اسی کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کتاب کو سامنے لانے کا فیصلہ کیا گیا۔درحقیقت ارطغرل کے حالات پر قلم اٹھانا نہایت محنت طلب اور دشوار کام تھا کیونکہ ارطغرل کی شخصیت کے متعلق کتبِ تواریخ میں بہت کم لکھا گیا ہے۔ بعد کے ادوار میں مرتب ہونے والی کتب میں بعض مستشرقین نے اس موضوع پر تاریخ کو مسخ کر کے اپنے بغض و نفرت کا اظہار کیا ہے، جس کا مقصد اہلِ اسلام اور خصوصاً نوجوان نسل کو اپنے اسلاف سے دُور کر کے ان کے جذبۂ ایمانی کو کمزور کرنا تھا۔ اس مقصد کے تحت گزشتہ ایک صدی میں بعض ایسی کتابیں لکھی گئیں جنہوں نے خاموش ہتھیار کا کام کیا۔ارطغرل کی زندگی پر ایک جامع کتاب ترتیب دینے کے دو راستے تھے۔ پہلا یہ کہ اس کے متعلق مستند اور غیر مستند مواد کو یکجا کر کے، واقعات میں مبالغہ آرائی اور پُرگوئی سے کام لے کر کتاب لکھی جاتی جو کہ پڑھنے والوں کے لیے دلچسپی کا باعث تو ہو جاتی لیکن کتاب تاریخ سے زیادہ فرضی داستان اور فکشن کی شکل اختیار کر لیتی۔دوسرا راستہ یہ تھا کہ معتبر کتب و روایات کی روشنی میں ارطغرل کی حقیقی زندگی، خاندانی پس منظر اور اس زمانے میں ارطغرل سے وابستہ اہم شخصیات اور واقعات کو اساس بنا کر تاریخ بیان کی جائے، جس سے ارطغرل کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم ہو سکے۔ہم نے اس کتاب میں دوسرا راستہ اختیار کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔اسلام سے قبل، ابتدائی ترکوں کے متعلق معلومات کا اہم منبع قدیم اَوغُوزنامہ [Oghuz Nama]، ددہ قورقوت کی کتاب [Book of Dede Korkut] اور گور اوغلی کی داستانیں [Epic of Görogly] ہیں، جو کہ ہزاروں سال سے سینہ بہ سینہ لوک داستانوں کی صورت میں ترکوں میں چلتی آئی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کتب کے واقعات تبدیلیوں کے باعث افسانوی شکل اختیار کر گئے۔ لیکن تاریخ کو بہتر سمجھنے کے لیے افسانے بھی ضروری ہیں۔ جہاں لکھی ہوئی تاریخ کی رسائی ختم ہوجاتی ہے، وہاں یہی افسانے اور داستانیں اہمیت حاصل کر لیتی ہیں۔ یاد رہے کہ اگر کسی قوم کی اپنی لوک داستانیں موجود ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی تاریخ بھی بہت وسعت رکھتی ہے۔ ارطغرل غازی کی طرف سے اپنے بیٹے عثمان کو کی جانے والی آخری نصیحت و وصیت میں تاریخ کی اہمیت کو یوں بیان کیا گیا ہے:’’میرے بیٹے عثمان! جو اپنے ماضی سے ناواقف ہو، وہ اپنے مستقبل سے بھی بےخبر رہتا ہے۔ اپنی تاریخ سے آگہی حاصل کرو، تاکہ تم مطمئن ہو کر آگے کی طرف قدم رکھ سکو۔ ہمیشہ یاد رکھنا کہ تم کہاں سے آئے تھے اور تم نے کہاں جانا ہے۔‘‘تو لیجیے، کتاب حاضر ہے۔ مجھے یہ دعویٰ کرنے میں کوئی عار نہیں کہ ارطغرل غازی پر یہ اُردو زبان میں شائع ہونے والی پہلی جامع اور تحقیقی کتاب ہے۔ اس کتاب کی اشاعت میں بک کارنر جہلم کے ڈائریکٹر محترم اَمر شاہد صاحب کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں جنھوں نے اس اہم موضوع پر لکھنے کی حوصلہ افزائی کی اور ارطغرل غازی کے حقیقی اور مستند حالاتِ زندگی کو کتابی شکل میں منظر عام پر لانے کا بیڑا اٹھایا۔ نایاب و کم یاب کتابوں تک رسائی اور دستیابی کا ذریعہ بنے۔ اس کے لیے وہ خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔ساتھ ہی محترم سلمان خالد صاحب کا بھی نہایت سپاس گزار ہوں، انہوں نے دن رات ایک کر کے کتاب کی باریک بینی سے نظر ثانی کی اور اصلاح و ایڈیٹنگ کی ذمہ داریوں کو بطریقِ احسن سرانجام دیا۔ ابتدائی صفحات میں دی گئی تصاویر کی ریسرچ بھی انہی کی محنت ہے۔اس کتاب کی تصنیف میں زیادہ تر تُرکی و فارسی اور بعض مقامات پر انگریزی و اُردو ماخذات سے مدد لی گئی ہے تاکہ ایک مستند تاریخ مرتب کی جا سکے۔ تاہم انسان خطا سے خالی نہیں ہے اور چونکہ میری مادری زبان ترکی ہے اس لیے اگر کسی مقام پر کوئی لغزش سرزد ہوگئی ہو تو قارئین سے درگزر کا خواست گار ہوں۔رحمت اللہ ترکمن(سیکریٹری افغان پارلیمنٹیرین)27 جون 2020ءہری پور ہزارہ (خیبرپختونخوا)حال مقیم کابل (افغانستان)کچھ مصنف کے بارے میں:اس کتاب کے مصنف رحمت اللہ ترکمن بیک وقت ترک، افغان اور پاکستانی ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ آپ پیدائشی طور پر ترکمان ہیں اور ارساری قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں، شجرہ ترکوں کے سب سے اہم جد امجد اوغوز خان تک پہنچتا ہے، آپ اوغوز کے پوتے سالور بن تاغ کی آل سے ہیں۔ تاہم آپ کے پردادا آباد بابا 1920ء میں ترکمانستان سے اشتراکی انقلاب کے باعث افغانستان ہجرت کر آئے اور فاریاب صوبے کے اندخوی ضلع میں آباد ہوئے۔ بعد ازاں 1979ء میں سوویت-افغان جنگ کے باعث ان کے گھرانے کو ایک مرتبہ پھر ہجرت کرنا پڑی اور 90ء کی دہائی میں آپ کے دادا حق نظر اور آپ کے والد عبداللہ ترکمن پاکستان منتقل ہو گئے۔ یہیں ہری پور، خیبر پختون خواہ میں رحمت اللہ کی پیدائش ہوئی۔ آپ نے ابتدائی و ثانوی تعلیم ہری پور سے ہی حاصل کی۔ بعد ازاں کابل منتقل ہوگئے اور اعلیٰ تعلیم کے لیے پولیٹیکل سائنس کا انتخاب کیا۔ 2018ء سے افغان پارلیمنٹ کے واحد ترکمان رکن قومی اسمبلی محمد شاکر کریمی کے سیکریٹری کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ آپ کی مادری زبان ترکمنی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فارسی، پشتو، اردو، انگریزی، ازبکی، ترکی، آذری، ہندکو اور پنجابی زبانوں میں بھی کمال مہارت رکھتے ہیں۔ تاریخِ اسلام، بالخصوص ترک تاریخ پر اُردو، فارسی اور ترکی میں کئی مقالات اور تحقیقی مضامین لکھ چکے ہیں جو وقتاً فوقتاً پاکستان و افغانستان کے رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ آپ اُردو میں عثمانی سلطنت کے جد امجد پر پہلی تحقیقی کتاب ’’ارطغرل غازی‘‘ کے ساتھ ساتھ ترک تاریخ کی اہم اور قدیم کتاب ’’شجرہ تراکمہ‘‘ کو بھی چغتائی ترک زبان سے اُردو میں ترجمہ کر چکے ہیں، جو جلد ہی کتابی شکل میں شائقین کے ہاتھوں میں ہوگی۔ Your one-stop Urdu Book store www.urdubook.com 

Order your copy of Ertugrul Ghazi - ارطغرل غازی from Urdu Book to earn reward points along with fast Shipping and chance to win books in the book fair and Urdu bazar online.

Author: RAHMATULLAH TURKMEN
Translator: N/A
Language: Urdu
Pages: 368
Year: 2021
ISBN: 978-969-662-269-7
Categories: Islam, History, Biography

ترک قوم تاریخِ عالم میں خاص اہمیت کی حامل ہے۔ ترک قبائل، جن کا نسب حضرت نوحu کے بیٹے یافث سے جا ملتا ہے، قدیم اقوام کی فہرست میں شامل ہیں۔ اسلام سے قبل کے ادوار میں ترکوں نے آسیائے میانہ (وسط ایشیا) سے نکل کر دُنیا کے اکثر حصوں میں عظیم ریاستیں تشکیل دیں۔ جب ترکوں میں لطفِ خداوندی سے ایمان کا نُور داخل ہوا تو ان میں جسمانی قوت کے ساتھ ساتھ روحانی و ایمانی طاقت کا بھی اضافہ ہوا، جس کے بعد بہت کم عرصے میں انھوں نے خود کو شہرت و عظمت کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور سینکڑوں علما، شعرا، سلاطین و فاتحین کو جنم دیا۔
ترکوں کی ان عظیم شخصیات میں ایک نام ارطغرل غازی کا سامنے آتا ہے جس نے چار سوخیموں کے ساتھ اناطولیہ کی طرف سفر کر کے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور بہت کم عرصے میں ہزاروں کی تعداد میں غازیانِ اسلام کا لشکر جمع کر کے تاتاریوں اور بازنطینیوں کے خلاف قابلِ قدر خدمات انجام دیں۔ اگرچہ ارطغرل غازی کا نام عثمانی سلاطین و خلفا میں نہیں آتا، لیکن ارطغرل کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کی اولاد سے 37 سلاطین پیدا ہوئے اور 1299ء سے لے کر 1922ء تک تین براعظموں اور سات سمندورں پر حاکم رہے۔
پڑھنے والوں کے لیے یہ امر بھی دلچسپی کا باعث ہوگا کہ ارطغرل غازی کی اولاد کا برصغیر سے بھی عرصۂ دراز تک تعلق رہا ہے۔ ارطغرل کی ساتویں نسل سے عثمانی سلطان محمد فاتح کے بھائی شہزادہ یوسف نے جنوبی ہندوستان کے علاقے بیجاپور [Bijapur] میں عادل شاہی ریاست [Adil Shahi Dynasty] کی بنیاد ڈالی، جو دو سو سال تک قائم رہی۔ ظہیر الدین بابر نے جب ہندوستان پر یورش کی تو عثمانی خلیفہ و سلطان سلیم اوّل [Selim I] نے کئی مشہور سپہ سالاروں کو توپ اور لشکر کے ساتھ مدد کے لیے روانہ کیا۔ بعدازاں برصغیر کے مسلمانوں نے انگریز دَور میں تحریکِ خلافت کی صورت میں عثمانی خلافت کے دفاع میں ایک عظیم تحریک چلائی۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران ترکی سیریل دیریلیش ارطغرل [Diriliş: Ertuğrul] کے سبب جہاں دُنیا بھر میں ایک فکری انقلاب دیکھنے میں آیا، وہیں پاکستان میں بھی تاریخ کے اس گمنام ہیرو کا نام دوبارہ زندہ ہوا اور ہر خاص و عام میں اس کی حیات اور کارناموں کے متعلق پڑھنے اور جاننے کا شوق پیدا ہونے لگا۔ لیکن اس ڈرامے کے سامنے آنے سے کئی غلط معلومات بھی دیکھنے والوں میں مشہور ہوگئیں اور ایک بڑی تعداد نے ڈرامے کو مکمل طور پر ہی حقیقت تصور کر لیا ہے۔ حالانکہ ارطغرل غازی کی حقیقی زندگی اور کتبِ تواریخ میں مذکور حالات بہت الگ ہیں۔ اس کے متعلق ایک باب میں تفصیلی طور پر وضاحت کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ایک طبقہ ارطغرل کے خلاف کینہ و بغض میں اس قدر آگے بڑھ گیا ہے کہ اس کی شخصیت و تاریخ پر اعتراض کر کے اور اس کی مسلمانی کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کر کے سوال اٹھانے لگا ہے۔ ان اعتراضات کا جواب بھی کتاب میں لکھ دیا گیا ہے۔
سلطنتِ عثمانیہ کے متعلق اُردو زبان میں بہت کم لکھا گیا ہے۔ ارطغرل غازی پر تو کوئی بھی اُردو داں مؤرخ پانچ دس صفحات سے زیادہ نہ لکھ سکا۔ لہٰذا اب اس شخصیت پر علمی و تحقیقی کتاب کی اشد ضروت محسوس ہونے لگی۔ اسی کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کتاب کو سامنے لانے کا فیصلہ کیا گیا۔
درحقیقت ارطغرل کے حالات پر قلم اٹھانا نہایت محنت طلب اور دشوار کام تھا کیونکہ ارطغرل کی شخصیت کے متعلق کتبِ تواریخ میں بہت کم لکھا گیا ہے۔ بعد کے ادوار میں مرتب ہونے والی کتب میں بعض مستشرقین نے اس موضوع پر تاریخ کو مسخ کر کے اپنے بغض و نفرت کا اظہار کیا ہے، جس کا مقصد اہلِ اسلام اور خصوصاً نوجوان نسل کو اپنے اسلاف سے دُور کر کے ان کے جذبۂ ایمانی کو کمزور کرنا تھا۔ اس مقصد کے تحت گزشتہ ایک صدی میں بعض ایسی کتابیں لکھی گئیں جنہوں نے خاموش ہتھیار کا کام کیا۔
ارطغرل کی زندگی پر ایک جامع کتاب ترتیب دینے کے دو راستے تھے۔ پہلا یہ کہ اس کے متعلق مستند اور غیر مستند مواد کو یکجا کر کے، واقعات میں مبالغہ آرائی اور پُرگوئی سے کام لے کر کتاب لکھی جاتی جو کہ پڑھنے والوں کے لیے دلچسپی کا باعث تو ہو جاتی لیکن کتاب تاریخ سے زیادہ فرضی داستان اور فکشن کی شکل اختیار کر لیتی۔دوسرا راستہ یہ تھا کہ معتبر کتب و روایات کی روشنی میں ارطغرل کی حقیقی زندگی، خاندانی پس منظر اور اس زمانے میں ارطغرل سے وابستہ اہم شخصیات اور واقعات کو اساس بنا کر تاریخ بیان کی جائے، جس سے ارطغرل کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم ہو سکے۔
ہم نے اس کتاب میں دوسرا راستہ اختیار کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔
اسلام سے قبل، ابتدائی ترکوں کے متعلق معلومات کا اہم منبع قدیم اَوغُوزنامہ [Oghuz Nama]، ددہ قورقوت کی کتاب [Book of Dede Korkut] اور گور اوغلی کی داستانیں [Epic of Görogly] ہیں، جو کہ ہزاروں سال سے سینہ بہ سینہ لوک داستانوں کی صورت میں ترکوں میں چلتی آئی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کتب کے واقعات تبدیلیوں کے باعث افسانوی شکل اختیار کر گئے۔ لیکن تاریخ کو بہتر سمجھنے کے لیے افسانے بھی ضروری ہیں۔ جہاں لکھی ہوئی تاریخ کی رسائی ختم ہوجاتی ہے، وہاں یہی افسانے اور داستانیں اہمیت حاصل کر لیتی ہیں۔ یاد رہے کہ اگر کسی قوم کی اپنی لوک داستانیں موجود ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی تاریخ بھی بہت وسعت رکھتی ہے۔ ارطغرل غازی کی طرف سے اپنے بیٹے عثمان کو کی جانے والی آخری نصیحت و وصیت میں تاریخ کی اہمیت کو یوں بیان کیا گیا ہے:
’’میرے بیٹے عثمان! جو اپنے ماضی سے ناواقف ہو، وہ اپنے مستقبل سے بھی بےخبر رہتا ہے۔ اپنی تاریخ سے آگہی حاصل کرو، تاکہ تم مطمئن ہو کر آگے کی طرف قدم رکھ سکو۔ ہمیشہ یاد رکھنا کہ تم کہاں سے آئے تھے اور تم نے کہاں جانا ہے۔‘‘
تو لیجیے، کتاب حاضر ہے۔ مجھے یہ دعویٰ کرنے میں کوئی عار نہیں کہ ارطغرل غازی پر یہ اُردو زبان میں شائع ہونے والی پہلی جامع اور تحقیقی کتاب ہے۔ اس کتاب کی اشاعت میں بک کارنر جہلم کے ڈائریکٹر محترم اَمر شاہد صاحب کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں جنھوں نے اس اہم موضوع پر لکھنے کی حوصلہ افزائی کی اور ارطغرل غازی کے حقیقی اور مستند حالاتِ زندگی کو کتابی شکل میں منظر عام پر لانے کا بیڑا اٹھایا۔ نایاب و کم یاب کتابوں تک رسائی اور دستیابی کا ذریعہ بنے۔ اس کے لیے وہ خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔
ساتھ ہی محترم سلمان خالد صاحب کا بھی نہایت سپاس گزار ہوں، انہوں نے دن رات ایک کر کے کتاب کی باریک بینی سے نظر ثانی کی اور اصلاح و ایڈیٹنگ کی ذمہ داریوں کو بطریقِ احسن سرانجام دیا۔ ابتدائی صفحات میں دی گئی تصاویر کی ریسرچ بھی انہی کی محنت ہے۔
اس کتاب کی تصنیف میں زیادہ تر تُرکی و فارسی اور بعض مقامات پر انگریزی و اُردو ماخذات سے مدد لی گئی ہے تاکہ ایک مستند تاریخ مرتب کی جا سکے۔ تاہم انسان خطا سے خالی نہیں ہے اور چونکہ میری مادری زبان ترکی ہے اس لیے اگر کسی مقام پر کوئی لغزش سرزد ہوگئی ہو تو قارئین سے درگزر کا خواست گار ہوں۔

رحمت اللہ ترکمن
(سیکریٹری افغان پارلیمنٹیرین)

27 جون 2020ء
ہری پور ہزارہ (خیبرپختونخوا)
حال مقیم کابل (افغانستان)


کچھ مصنف کے بارے میں:

اس کتاب کے مصنف رحمت اللہ ترکمن بیک وقت ترک، افغان اور پاکستانی ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ آپ پیدائشی طور پر ترکمان ہیں اور ارساری قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں، شجرہ ترکوں کے سب سے اہم جد امجد اوغوز خان تک پہنچتا ہے، آپ اوغوز کے پوتے سالور بن تاغ کی آل سے ہیں۔ تاہم آپ کے پردادا آباد بابا 1920ء میں ترکمانستان سے اشتراکی انقلاب کے باعث افغانستان ہجرت کر آئے اور فاریاب صوبے کے اندخوی ضلع میں آباد ہوئے۔ بعد ازاں 1979ء میں سوویت-افغان جنگ کے باعث ان کے گھرانے کو ایک مرتبہ پھر ہجرت کرنا پڑی اور 90ء کی دہائی میں آپ کے دادا حق نظر اور آپ کے والد عبداللہ ترکمن پاکستان منتقل ہو گئے۔ یہیں ہری پور، خیبر پختون خواہ میں رحمت اللہ کی پیدائش ہوئی۔ آپ نے ابتدائی و ثانوی تعلیم ہری پور سے ہی حاصل کی۔ بعد ازاں کابل منتقل ہوگئے اور اعلیٰ تعلیم کے لیے پولیٹیکل سائنس کا انتخاب کیا۔ 2018ء سے افغان پارلیمنٹ کے واحد ترکمان رکن قومی اسمبلی محمد شاکر کریمی کے سیکریٹری کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ آپ کی مادری زبان ترکمنی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فارسی، پشتو، اردو، انگریزی، ازبکی، ترکی، آذری، ہندکو اور پنجابی زبانوں میں بھی کمال مہارت رکھتے ہیں۔ تاریخِ اسلام، بالخصوص ترک تاریخ پر اُردو، فارسی اور ترکی میں کئی مقالات اور تحقیقی مضامین لکھ چکے ہیں جو وقتاً فوقتاً پاکستان و افغانستان کے رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ آپ اُردو میں عثمانی سلطنت کے جد امجد پر پہلی تحقیقی کتاب ’’ارطغرل غازی‘‘ کے ساتھ ساتھ ترک تاریخ کی اہم اور قدیم کتاب ’’شجرہ تراکمہ‘‘ کو بھی چغتائی ترک زبان سے اُردو میں ترجمہ کر چکے ہیں، جو جلد ہی کتابی شکل میں شائقین کے ہاتھوں میں ہوگی۔

Your one-stop Urdu Book store www.urdubook.com 

Order your copy of Ertugrul Ghazi - ارطغرل غازی from Urdu Book to earn reward points along with fast Shipping and chance to win books in the book fair and Urdu bazar online.

Author: RAHMATULLAH TURKMEN
Translator: N/A
Language: Urdu
Pages: 368
Year: 2021
ISBN: 978-969-662-269-7
Categories: Islam, History, Biography

ترک قوم تاریخِ عالم میں خاص اہمیت کی حامل ہے۔ ترک قبائل، جن کا نسب حضرت نوحu کے بیٹے یافث سے جا ملتا ہے، قدیم اقوام کی فہرست میں شامل ہیں۔ اسلام سے قبل کے ادوار میں ترکوں نے آسیائے میانہ (وسط ایشیا) سے نکل کر دُنیا کے اکثر حصوں میں عظیم ریاستیں تشکیل دیں۔ جب ترکوں میں لطفِ خداوندی سے ایمان کا نُور داخل ہوا تو ان میں جسمانی قوت کے ساتھ ساتھ روحانی و ایمانی طاقت کا بھی اضافہ ہوا، جس کے بعد بہت کم عرصے میں انھوں نے خود کو شہرت و عظمت کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور سینکڑوں علما، شعرا، سلاطین و فاتحین کو جنم دیا۔
ترکوں کی ان عظیم شخصیات میں ایک نام ارطغرل غازی کا سامنے آتا ہے جس نے چار سوخیموں کے ساتھ اناطولیہ کی طرف سفر کر کے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور بہت کم عرصے میں ہزاروں کی تعداد میں غازیانِ اسلام کا لشکر جمع کر کے تاتاریوں اور بازنطینیوں کے خلاف قابلِ قدر خدمات انجام دیں۔ اگرچہ ارطغرل غازی کا نام عثمانی سلاطین و خلفا میں نہیں آتا، لیکن ارطغرل کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس کی اولاد سے 37 سلاطین پیدا ہوئے اور 1299ء سے لے کر 1922ء تک تین براعظموں اور سات سمندورں پر حاکم رہے۔
پڑھنے والوں کے لیے یہ امر بھی دلچسپی کا باعث ہوگا کہ ارطغرل غازی کی اولاد کا برصغیر سے بھی عرصۂ دراز تک تعلق رہا ہے۔ ارطغرل کی ساتویں نسل سے عثمانی سلطان محمد فاتح کے بھائی شہزادہ یوسف نے جنوبی ہندوستان کے علاقے بیجاپور [Bijapur] میں عادل شاہی ریاست [Adil Shahi Dynasty] کی بنیاد ڈالی، جو دو سو سال تک قائم رہی۔ ظہیر الدین بابر نے جب ہندوستان پر یورش کی تو عثمانی خلیفہ و سلطان سلیم اوّل [Selim I] نے کئی مشہور سپہ سالاروں کو توپ اور لشکر کے ساتھ مدد کے لیے روانہ کیا۔ بعدازاں برصغیر کے مسلمانوں نے انگریز دَور میں تحریکِ خلافت کی صورت میں عثمانی خلافت کے دفاع میں ایک عظیم تحریک چلائی۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران ترکی سیریل دیریلیش ارطغرل [Diriliş: Ertuğrul] کے سبب جہاں دُنیا بھر میں ایک فکری انقلاب دیکھنے میں آیا، وہیں پاکستان میں بھی تاریخ کے اس گمنام ہیرو کا نام دوبارہ زندہ ہوا اور ہر خاص و عام میں اس کی حیات اور کارناموں کے متعلق پڑھنے اور جاننے کا شوق پیدا ہونے لگا۔ لیکن اس ڈرامے کے سامنے آنے سے کئی غلط معلومات بھی دیکھنے والوں میں مشہور ہوگئیں اور ایک بڑی تعداد نے ڈرامے کو مکمل طور پر ہی حقیقت تصور کر لیا ہے۔ حالانکہ ارطغرل غازی کی حقیقی زندگی اور کتبِ تواریخ میں مذکور حالات بہت الگ ہیں۔ اس کے متعلق ایک باب میں تفصیلی طور پر وضاحت کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ایک طبقہ ارطغرل کے خلاف کینہ و بغض میں اس قدر آگے بڑھ گیا ہے کہ اس کی شخصیت و تاریخ پر اعتراض کر کے اور اس کی مسلمانی کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کر کے سوال اٹھانے لگا ہے۔ ان اعتراضات کا جواب بھی کتاب میں لکھ دیا گیا ہے۔
سلطنتِ عثمانیہ کے متعلق اُردو زبان میں بہت کم لکھا گیا ہے۔ ارطغرل غازی پر تو کوئی بھی اُردو داں مؤرخ پانچ دس صفحات سے زیادہ نہ لکھ سکا۔ لہٰذا اب اس شخصیت پر علمی و تحقیقی کتاب کی اشد ضروت محسوس ہونے لگی۔ اسی کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کتاب کو سامنے لانے کا فیصلہ کیا گیا۔
درحقیقت ارطغرل کے حالات پر قلم اٹھانا نہایت محنت طلب اور دشوار کام تھا کیونکہ ارطغرل کی شخصیت کے متعلق کتبِ تواریخ میں بہت کم لکھا گیا ہے۔ بعد کے ادوار میں مرتب ہونے والی کتب میں بعض مستشرقین نے اس موضوع پر تاریخ کو مسخ کر کے اپنے بغض و نفرت کا اظہار کیا ہے، جس کا مقصد اہلِ اسلام اور خصوصاً نوجوان نسل کو اپنے اسلاف سے دُور کر کے ان کے جذبۂ ایمانی کو کمزور کرنا تھا۔ اس مقصد کے تحت گزشتہ ایک صدی میں بعض ایسی کتابیں لکھی گئیں جنہوں نے خاموش ہتھیار کا کام کیا۔
ارطغرل کی زندگی پر ایک جامع کتاب ترتیب دینے کے دو راستے تھے۔ پہلا یہ کہ اس کے متعلق مستند اور غیر مستند مواد کو یکجا کر کے، واقعات میں مبالغہ آرائی اور پُرگوئی سے کام لے کر کتاب لکھی جاتی جو کہ پڑھنے والوں کے لیے دلچسپی کا باعث تو ہو جاتی لیکن کتاب تاریخ سے زیادہ فرضی داستان اور فکشن کی شکل اختیار کر لیتی۔دوسرا راستہ یہ تھا کہ معتبر کتب و روایات کی روشنی میں ارطغرل کی حقیقی زندگی، خاندانی پس منظر اور اس زمانے میں ارطغرل سے وابستہ اہم شخصیات اور واقعات کو اساس بنا کر تاریخ بیان کی جائے، جس سے ارطغرل کے متعلق زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم ہو سکے۔
ہم نے اس کتاب میں دوسرا راستہ اختیار کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔
اسلام سے قبل، ابتدائی ترکوں کے متعلق معلومات کا اہم منبع قدیم اَوغُوزنامہ [Oghuz Nama]، ددہ قورقوت کی کتاب [Book of Dede Korkut] اور گور اوغلی کی داستانیں [Epic of Görogly] ہیں، جو کہ ہزاروں سال سے سینہ بہ سینہ لوک داستانوں کی صورت میں ترکوں میں چلتی آئی ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ان کتب کے واقعات تبدیلیوں کے باعث افسانوی شکل اختیار کر گئے۔ لیکن تاریخ کو بہتر سمجھنے کے لیے افسانے بھی ضروری ہیں۔ جہاں لکھی ہوئی تاریخ کی رسائی ختم ہوجاتی ہے، وہاں یہی افسانے اور داستانیں اہمیت حاصل کر لیتی ہیں۔ یاد رہے کہ اگر کسی قوم کی اپنی لوک داستانیں موجود ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی تاریخ بھی بہت وسعت رکھتی ہے۔ ارطغرل غازی کی طرف سے اپنے بیٹے عثمان کو کی جانے والی آخری نصیحت و وصیت میں تاریخ کی اہمیت کو یوں بیان کیا گیا ہے:
’’میرے بیٹے عثمان! جو اپنے ماضی سے ناواقف ہو، وہ اپنے مستقبل سے بھی بےخبر رہتا ہے۔ اپنی تاریخ سے آگہی حاصل کرو، تاکہ تم مطمئن ہو کر آگے کی طرف قدم رکھ سکو۔ ہمیشہ یاد رکھنا کہ تم کہاں سے آئے تھے اور تم نے کہاں جانا ہے۔‘‘
تو لیجیے، کتاب حاضر ہے۔ مجھے یہ دعویٰ کرنے میں کوئی عار نہیں کہ ارطغرل غازی پر یہ اُردو زبان میں شائع ہونے والی پہلی جامع اور تحقیقی کتاب ہے۔ اس کتاب کی اشاعت میں بک کارنر جہلم کے ڈائریکٹر محترم اَمر شاہد صاحب کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں جنھوں نے اس اہم موضوع پر لکھنے کی حوصلہ افزائی کی اور ارطغرل غازی کے حقیقی اور مستند حالاتِ زندگی کو کتابی شکل میں منظر عام پر لانے کا بیڑا اٹھایا۔ نایاب و کم یاب کتابوں تک رسائی اور دستیابی کا ذریعہ بنے۔ اس کے لیے وہ خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔
ساتھ ہی محترم سلمان خالد صاحب کا بھی نہایت سپاس گزار ہوں، انہوں نے دن رات ایک کر کے کتاب کی باریک بینی سے نظر ثانی کی اور اصلاح و ایڈیٹنگ کی ذمہ داریوں کو بطریقِ احسن سرانجام دیا۔ ابتدائی صفحات میں دی گئی تصاویر کی ریسرچ بھی انہی کی محنت ہے۔
اس کتاب کی تصنیف میں زیادہ تر تُرکی و فارسی اور بعض مقامات پر انگریزی و اُردو ماخذات سے مدد لی گئی ہے تاکہ ایک مستند تاریخ مرتب کی جا سکے۔ تاہم انسان خطا سے خالی نہیں ہے اور چونکہ میری مادری زبان ترکی ہے اس لیے اگر کسی مقام پر کوئی لغزش سرزد ہوگئی ہو تو قارئین سے درگزر کا خواست گار ہوں۔

رحمت اللہ ترکمن
(سیکریٹری افغان پارلیمنٹیرین)

27 جون 2020ء
ہری پور ہزارہ (خیبرپختونخوا)
حال مقیم کابل (افغانستان)


کچھ مصنف کے بارے میں:

اس کتاب کے مصنف رحمت اللہ ترکمن بیک وقت ترک، افغان اور پاکستانی ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ آپ پیدائشی طور پر ترکمان ہیں اور ارساری قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں، شجرہ ترکوں کے سب سے اہم جد امجد اوغوز خان تک پہنچتا ہے، آپ اوغوز کے پوتے سالور بن تاغ کی آل سے ہیں۔ تاہم آپ کے پردادا آباد بابا 1920ء میں ترکمانستان سے اشتراکی انقلاب کے باعث افغانستان ہجرت کر آئے اور فاریاب صوبے کے اندخوی ضلع میں آباد ہوئے۔ بعد ازاں 1979ء میں سوویت-افغان جنگ کے باعث ان کے گھرانے کو ایک مرتبہ پھر ہجرت کرنا پڑی اور 90ء کی دہائی میں آپ کے دادا حق نظر اور آپ کے والد عبداللہ ترکمن پاکستان منتقل ہو گئے۔ یہیں ہری پور، خیبر پختون خواہ میں رحمت اللہ کی پیدائش ہوئی۔ آپ نے ابتدائی و ثانوی تعلیم ہری پور سے ہی حاصل کی۔ بعد ازاں کابل منتقل ہوگئے اور اعلیٰ تعلیم کے لیے پولیٹیکل سائنس کا انتخاب کیا۔ 2018ء سے افغان پارلیمنٹ کے واحد ترکمان رکن قومی اسمبلی محمد شاکر کریمی کے سیکریٹری کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ آپ کی مادری زبان ترکمنی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فارسی، پشتو، اردو، انگریزی، ازبکی، ترکی، آذری، ہندکو اور پنجابی زبانوں میں بھی کمال مہارت رکھتے ہیں۔ تاریخِ اسلام، بالخصوص ترک تاریخ پر اُردو، فارسی اور ترکی میں کئی مقالات اور تحقیقی مضامین لکھ چکے ہیں جو وقتاً فوقتاً پاکستان و افغانستان کے رسائل و جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ آپ اُردو میں عثمانی سلطنت کے جد امجد پر پہلی تحقیقی کتاب ’’ارطغرل غازی‘‘ کے ساتھ ساتھ ترک تاریخ کی اہم اور قدیم کتاب ’’شجرہ تراکمہ‘‘ کو بھی چغتائی ترک زبان سے اُردو میں ترجمہ کر چکے ہیں، جو جلد ہی کتابی شکل میں شائقین کے ہاتھوں میں ہوگی۔

Your one-stop Urdu Book store www.urdubook.com